اگست 2021ء تک پاکستان کے مرکزی بینک (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کے پاس 20 ارب ڈالر کے ذخائر تھے اور تب سے آج تک زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جو فی الوقت 12 ارب ڈالر تک کم ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 7 ماہ کے دوران سٹیٹ بینک نے 8 ارب ڈالر مالیت کے ذخائر کھوئے ہیں یعنی ہر ماہ ایک ارب ڈالر پاکستان سے جا رہے ہیں۔ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے کہ 25 مارچ کے روز ختم ہونے والے ہفتے کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر میں 3 ارب ڈالر کمی آئی اور پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی ایک ہفتے کے دوران اِس قدر زرمبادلہ کم ہونے کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
مارچ 2022ء میں سٹیٹ بینک کے ذخائر پاکستان کی 2 ماہ سے بھی کم کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی تھے۔ اگر موازنہ کیا جائے تو اسٹیٹ بینک کے پاس موجود 12 ارب ڈالر کے ذخائر 2 ماہ کی درآمدات پوری کرنے کے لئے کافی ہیں۔یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ سٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر قرض لیکر یعنی مصنوعی طریقے سے حاصل کئے گئے ہیں۔ اِن میں 6.7 ارب ڈالر آئی ایم ایف‘ 2 ارب ڈالر سعودی عرب‘ 6 ارب ڈالر چین‘ 2 ارب ڈالر متحدہ عرب امارات اُور 4.8 ارب ڈالر قومی اثاثے ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کے 12 ارب ڈالر کے ذخیرے میں 9.5 ارب ڈالر مصنوعی طریقے سے حاصل کئے ہیں اُور وہ مالیاتی بوجھ ہیں‘ جن سے پاکستان کے مالیاتی مسائل کم نہیں ہو سکتے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہناہے کہ آئندہ 12 ماہ کے دوران پاکستان کی ضروریات کیلئے پاکستان کو 12.4 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو سالانہ 32 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کے ذمے واجب الادأ قرضہ جات اور سود کی ادائیگی کیلئے ساڑھے پندرہ ارب ڈالر چاہئے ہوتے ہیں۔آئندہ بارہ ماہ کیلئے پاکستان کی ضرورت کسی بیرونی ذریعے سے ملنے والے مالیاتی وسائل کی ہے لیکن پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اُس کی وجہ سے اِس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں گے اور اگر پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری نہیں ملتی تو اِس کی وجہ سے قومی مالیاتی ادائیگیوں سمیت درآمدات کیلئے ادائیگیاں مشکل ہو جائیں گی۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی تیزی سے کمی آتی ہے۔
اِسی طرح پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ بڑھے گا اور اِن میں ساتھ ساتھ اضافہ نہیں ہوگا۔سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کیوں ہونے چاہئیں؟ اِس کے دو مقاصد ہوتے ہیں ایک تو بیرون ملک سے کی گئی خریداریوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے اور دوسرا ملکی کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کی وجہ سے سالانہ خسارہ 20 ارب تک جا پہنچا جو مجموعی قومی پیداوار کے چھ فیصد کے برابر ہے اور اگر اِس موقع پر خاطرخواہ اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے دنوں میں پاکستان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔