بہت بڑی غلط فہمی

 وہ خالی ہاتھ ہے۔ اک اکیلا کھڑا ہے۔ اپنے برا چاہنے والوں کے درمیان۔ہر آتا جاتا ہوا شخص اس کو ایک نظر دیکھ لیتا ہے۔کیونکہ یہ راستے ہی میں آتا ہے۔کوئی نہ کوئی اسے ضرور دیکھے گا۔یہ تنِ تنہا نہتا سب کا مقابلہ کرنے کو تیا رہے۔مگر اندازہ ہے کہ کمین گاہوں سے قافلے نکل کر جب آئیں گے تو اس کو سموچا نگل لیں گے۔ یہ کسی کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔بس اتنی سی ا س کی زندگی ہے جتنا یہ جیسے بھی سہی کھڑا توہے۔ وگرنہ اس کو اگر کسی نے اپنے راستے سے جس دم ہٹانا چاہاوہ اپنی سی کوشش کر کے اس کو زمین بوس کر دے گا۔ یہ کسی کو کچھ کہہ نہ سکے گا۔ یہ چپ چاپ ان کے قدموں پر نچھاور ہو جائے گا۔

پہلے بھی اس کے کئی ساتھی او رکئی جتھے اپنی ا س کشاکش میں اپنی زندگی لٹا چکے ہیں۔اس کا احسان کہ اس نے اس کو ختم کرنے والوں کو زندگی کی سانسیں دی ہیں۔ ان کی حفاظت کی ہے۔ یہ بہادر رکھوالے کھیتو ں کے کنارے کھڑے ہو ں۔ایک ہوں یا ان کی بہتات ہو۔انھوں نے خدمت سے کبھی کوتاہی نہیں کی۔جی ہا ں وہ ایک درخت ہے۔ ایک اکیلا اور تنہا جانے کب سے کھڑا ہے۔ یہ بوڑھا درخت سب کچھ دیکھ دیکھ کر زندگی جیتارہا۔وہ ایک خالی پلاٹ میں ذرا دور کر کے سبزہ زار میں جانے کب سے اپنی یہ ڈیوٹی نبھا رہا ہے۔یہا ں چار دیواری تھی۔ جس کو اندر سے بہت کم لوگوں نے دیکھا ہے۔ یہا ں کا گیٹ ہمہ وقت بند رہتا تھا۔مگر کچھ دنوں سے ا س زمین کے مالک کو نرالی سوجھی ہے۔یہ درخت تب سے لوگوں کو دکھائی دینا شروع ہواہے۔میں اسے روز دیکھ رہا ہوں۔کیونکہ آتے جاتے یہ میری راہ میں پڑتا ہے۔

اس کاکیا ہے یہ بھی اپنے سر کی قربانی دے گا۔ یہ بھی ان شہریوں کے امن امان اور ان کے سکھ چین کی خاطر ان پر نثار ہوجانے پر دریغ نہیں کرے گا۔ یہ مر جائے گا مگر منہ سے اف تک نہیں کہے گا۔ کتنا اچھا لگ رہا ہے۔اک اکیلا درخت ماحول کی سختیوں کے آگے ڈٹا ہوا کھڑا ہے سبز لباس میں آراستہ اکڑا ہوا۔ضمیر کا سودا نہ کرنے والا۔شام کے وقت یہ کتنا اُداس لگتا ہے۔شاید مجھے لگتا ہے کسی اور کو اس کی تنہائی اور اس کی اداسی محسو س نہیں ہوتی۔۔پہلے تو یہ چاردیواری میں قید تھا۔ کسی کو نظر نہ آتا تھا۔ اندر ہی اندر پل بڑھ رہا تھا۔ مگر اب تو وہ ہر کسی کی آنکھوں تلے آ رہاہے۔نگاہوں سے کچلاجانے والا سب کو دیکھتا ہے۔مگر اس کی طرف کوئی دیکھ کر بھی متوجہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ راہ گزرنے والوں کے آگے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔اس جگہ کی  پلاٹنگ  ہو چکی ہے۔نشانات لگ چکے ہیں

۔بس چونکہ یہ درخت آخر میں پڑتا ہے۔ا س لئے یہ اب بھی موجود رہے گا۔ مگر کوئی خواہ درخت ہو یا انسان تک اپنا وجود بر قرار رکھ سکتا ہے۔انسان زمین دوز ہو جاتے ہیں او ردرخت زمین بوس ہوجایا کرتے ہیں۔ پروین شاکر نے کہا”اس بار جو ایندھن کے لئے کٹ کے گرا تھا۔چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے“۔شام کو یہ درخت روتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مگر اس کی آواز کون سنے۔مجھے سنائی دیتی ہے۔اس کامطلب یہ نہیں کہ ہر ایک کو یہ ہچکیاں سننے میں آتی ہوں گی۔رضا ہمدانی کا کیا خوبصورت شعر ہے ”ہم ذوقِ سماعت سے ہیں محروم وگرنہ۔ہر قطرہ ئ شبنم میں دھڑکنے کی صدا ہے

“۔”تونے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد۔ کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد۔اب گاہکوں کو آہستہ آہستہ یہاں کی زمین کے بیش قیمت ہونے او ریہاں پلاٹ خریدنے کی اہمیت کا انداز ہو رہا ہے۔گاہک آ رہے ہیں۔عنقریب تین تین مرلے کے پلاٹ تیا رہو جائیں گے۔ یہاں چونا ڈال کر لکیریں کھینچ دی گئی ہیں۔جب سڑک کے ساتھ والے پلاٹ بک جائیں گے تو آخر کے پلا ٹ کے لئے یا اس درخت کوپہلے ہی کاٹ لیا جائے گا یا پھر اس پلاٹ کے مالک کو اس کا وجود اپنی خریدی ہوئی زمین پر برالگے گا۔ وہ اس چھتنار اس ساونت اس سنتری کو کاٹ کر پھینک دے گا۔ کیونکہ یہ اس کے پلاٹ کے حسن کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔

جانے اس قسم کے کتنے ہی درختوں کوکاٹا جا چکا ہے۔جو موسم کی سختیوں کو سہتے ہوئے ہماری حفاظت کے لئے ہمہ وقت مستعد کھڑے رہے اور ہماری سانسوں کو تازگی بخشتے رہے چونکہ یہ سب کچھ خاموشی کے ساتھ ہوتا رہا اس لئے ہمیں اس کا احساس نہیں اگر اس کے بدلے ہم سے کوئی وصولی ہوتی یا ہم پر احسان جتایا جاتا تو ہم ان درختوں کے شکر گزار ہوتے۔
 ہم اپنے لاکھوں کے ماحول کو چند ٹکوں کی خاطر کتنی بے دردی سے تباہ کر رہے ہیں۔یہ ماحول کو خوبصورتی بخشتے ہیں مگر ہم ان کو کاٹ کر سمجھتے ہیں کہ اب ہمارا ماحول خوبصورت ہوا ہے۔