آپ نے عالمگیریت یا گلوبلائزیشن کے بارے میں تو یقینا سنا ہوگا، لیکن آپ کا ڈی گلوبلائزیشن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ سپلائی چین میں رکاوٹیں، بڑھتے ہوئے اخراجات، قلت جیسے تمام معمول کے حقائق اس عمل سے منسلک ہوسکتے ہیں، جسے ڈی گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے۔بعض ماہرین کورونا وبا کیساتھ ساتھ یوکرین جنگ کو گلوبلائزیشن کی تنزلی کی جانب ایک اہم موڑ قرار دے رہے ہیں۔ مگر دنیا کا یہ نیا نظام مستقبل میں کیسی شکل اختیار کرے گا؟ماہرین عام طور پر عالمگیریت کی تین اقسام بیان کرتے ہیں: معاشی، سماجی، اور سیاسی عالمگیریت۔معاشی عالمگیریت تجارت کے اعتبار سے عالمی معیشت کا انضمام ہے۔ اس عمل کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ گلوبلائزیشن سے غربت کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے اور اس سے لوگوں کی زندگیوں کا معیار بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ تاہم بعض ناقدین اِس گلوبلائزڈ ورلڈ میں موجود عدم مساوات کی بھرپور مخالفت بھی کرتے ہیں۔ ماہرین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بین الاقوامی اور صنعتی معاشروں میں عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے مطابق جہاں معاشی عالمگیریت کی کامیابیاں ہیں، وہیں خامیاں بھی ہیں، انہیں رد نہیں کیا جا سکتا عالمگیریت کے نظام میں ملکی معیشت کا انحصار دیگر ممالک کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 1990سے 2000ء تک دنیا بھر میں ملکوں کی آپس میں ہونے والی تجارت کے حجم میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ لیکن 2008 اور2009 کے مالیاتی بحران کے بعد سے اس عمل میں واضح کمی ہونا شروع ہوگئی۔ یہ گراوٹ عوامیت اور تحفظ پسندانہ معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں لیکن گلوبلائزیشن کی اس تنزلی میں کئی اور دیگر اسباب بھی شامل ہیں۔معاشی طور پر کورونا وبا کے بحران کے دوران سپلائی چین میں واضح طور پر کمی دیکھی گئی، جس کی وجہ سے سپرمارکیٹوں میں ضروری اشیائے خور ونوش کی قلت اور قیمتوں میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا تھا۔
اب صارفین یوکرین میں روسی حملوں کے منفی اثرات بڑے پیمانے پر محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روس پر عائد مغربی ممالک کی پابندیوں کے نتیجے میں توانائی اور زرعی مصنوعات کے شعبے بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک یوکرین اور روسی زرعی مصنوعات پر بڑے پیمانے پر انحصار کرتے ہیں۔ روس اور یوکرین گندم اور سن فلاور آئل کے بہت اہم عالمی برآمد کنندگان ہیں۔ماہرین کے مطابق جنگ اور پابندیوں کے باعث برآمدات میں رکاوٹ آئی ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف روس کے خلاف پابندیاں اس بڑی معیشت کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کر رہی ہیں۔یوکرین پر روسی فوجی چڑھائی کے اثرات صرف امیر ممالک پر مرتب نہیں ہوں گے بلکہ ترقی پذیر ممالک بھی اس سے شدید متاثر ہوں گے
کیونکہ وہ ان دونوں ملکوں سے معیاری قیمتوں پر آٹا اور تیل کی درآمدات پر زیادہ انحصار کرتے رہے ہیں۔ ماہرینِ معیشت کا خیال ہے کہ دنیا اس وقت واضح طور پر دو مختلف جیوپولیٹیکل اکنامک بلاکس کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس میں ایک جو جمہوری، مارکیٹ اکانومی پر مبنی ہے، جس میں امریکہ، یورپی یونین، جاپان، جنوبی کوریا، شمالی اور جنوبی امریکہ شامل ہیں۔ دوسرے بلاک میں مختلف طرزِ حکومت پر چلنے والے ممالک چین، روس اور ان کے اہم تجارتی پارٹنر شامل ہیں۔تاریخ کے پروفیسر آندریاس ورشِنگ کہتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی مشکل بحث ہے۔
ان کے بقول آپ 2020 میں کورونا وائرس کی وبا اور اب 2022 میں یوکرین میں جاری جنگ کے دو اہم واقعات کو ایک ساتھ دیکھتے ہوئے یہ ضرور سوچ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے‘اس طرح یہ کہنا غلط نہیں کہ موجودہ حالات میں دنیا تبدیلی کی زد میں ہے اور ایک وقت تھا کہ جب گلوبلائزیشن کے چرچے تھے اب وہ وقت آنے والا ہے کہ دنیا میں گلوبلائزیشن کی بجائے بلاکس کی سیاست اور معیشت پروان چڑھے گی۔اس کا مطلب ہے کہ اب ہر خطہ اپنی معیشت کو اپنے اندا زمیں تشکیل دے گا۔