جب تک کسی بھی تنظیم میں ینگ لوگ نہ ہوں وہ ادارہ آگے نہیں بڑھ پاتا۔کیونکہ جہاں جوان خون ہوتا ہے وہاں حوصلے بھی جوان ہوتے ہیں انجمنیں انہی جوان لوگوں کی وجہ سے اوپر اُٹھتی ہیں کیونکہ سینئرز کی دانش اپنی جگہ مگر آرگنائزیشن میں کام بھی کرنا دوڑنا بھاگنا بھی ہوتا ہے۔ گذری عمر کے لوگ دوڑ بھاگ نہیں کر پاتے۔کوئی فورم ہو وہاں سینئر زکا اپنا مقام ہوتا ہے۔ہدایات دیتے اورہونے والے کام پر نگرانی کرتے ہیں۔انھی کے دم قدم سے فیڈریشن پھلتی پھولتی ہے۔انسانوں کے فائدہ کیلئے ان گنت اکٹھ کام کر تے ہیں۔اب سے نہیں جب سے انسانوں نے ہوش سنبھالا ہے تب سے۔ جب سے آدمی نے اپنا بھلا سوچا۔اس نے کوئی نہ کوئی ویلفیئر کا ادارہ کھولا۔جو نہ صرف شہر صوبہ پھر ملکی سطح پر کام کرتا ہے۔بلکہ بعض گلڈز پورے ملک میں پھیلے ہیں۔ خواہ ادبی ہوں یا صحت کے امور سے وابستہ ہوں
۔پھر کوئی بھی ٹرسٹ ہو جو غریبوں کیلئے راشن پانی کا بندوبست کرتا ہو۔جتنے بورڈ بھی قائم کئے جائیں گے وہ اتنے ہی کم ہوں گے۔کیونکہ انسانیت ہمیشہ سے دکھی ہے۔فعال اور ترقی یافتہ معاشر ے کیوں نہ ہو ں۔کہیں نہ کہیں انسانوں کی فریاد ان کے دلو ں سے اٹھتی سنائی دیتی ہے۔بنی نوعِ انسان کی لامحدود خواہشات ہیں وہاں ان کے دکھ اور درد بھی لاتعداد ہیں۔انسان دھرتی پرآیا ہے کہ دوسروں کی بیماری آزاری میں مدد کرے۔ بیماریاں فقط غریب اور نادار لوگوں ہی کانصیب نہیں۔ ترقی یافتہ معاشرہ جہاں کسی چیز کی کمی نہیں وہاں بھی انسان آباد ہیں۔وہاں بھی انسانی معاشرے کو کسی نہ کسی المیہ کا سامنا ہے۔کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی آگ میں جل رہاہے۔ہاں مگر جو معاشرے معاشی طور پر عدم استحکا م کا شکارہیں وہاں انسانوں کو دکھ بھی زیادہ حاصل ہیں۔ بلڈ چین ایک فلاحی ادارہ ہے۔اس کا کام بیماروں کیلئے خون کا بندوبست کرنا اور پھر ان کوخون مہیا کرنا ہے۔
خاص طور پر تھیلی سیمیا کے مریض بچوں کیلئے ان کا کام تعریف کے لائق ہے۔ان کے رجسٹر میں بہت سے بچوں کے نام پتے لکھے ہیں۔جن کو یہ جوان لوگ ہر طرح سے کوشش کر کے خون مہیا کرتے ہیں۔تھیلی سیمیا ایسی بیماری ہے جس میں کسی مریض بچے کے اپنے جسم میں خون بنانے کی صلاحیت مردہ ہوجاتی ہے یہ بیماری ایسی ہے جس میں باہر سے صحت مند لوگ بچوں کوخون دیں گے تو یہ جی پائیں گے۔ تھیلی سیمیا خون کاکینسر اور ہومو فیلیا یہ سب انسانی جان کیلئے تکلیف دہ امراض ہیں۔اگر ان کو دوسرے انسان اپنے جسم سے خون نکال کر نہ دیں توان مریضوں کو اتنا خون کہا ں سے مل پائے نوجوانوں کی یہ رجمنٹ ”بلڈ چین“جس کانام پورے ملک میں مشہور ہے بچوں کیلئے خون کی دستیابی پر بہت کام کررہی ہے۔جس میں نوجوان بچے اور بچیاں دونوں شامل ہیں۔جن کامقصد دکھی انسانیت کی یہ تکلیف دور کرناہے۔کیونکہ ایک بچے کو تین ماہ کے بعد خون چڑھتا ہے
اور دوسرے بچے کو دوماہ کے بعد خون کی تھیلی رگوں میں پہنچائی جاتی ہے۔مگر بعض بچے اس سے کم دورانیہ میں خون کے طلب گا رہوتے ہیں۔ ان کے جسم کی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنا خون بنا سکیں۔پھر یہ دورانیہ اتنا کم ہوجاتا ہے کہ کسی بچے کو ایک ہفتہ کے بعد بھی خون چڑھایا جاتا ہے۔اس بلڈ ٹرانسفیوژن کی وجہ سے بچہ زندہ رہتا ہے۔مگر آفرین ہے ان لوگوں پرجو ان بچوں کی خاطر اپنے جسم سے ہر تین ماہ کے بعد خون مہیا کرتے ہیں۔انھوں نے اس درخشاں شمع کو اپنے خون سے جلا کر روشنی دینے کے قابل بنایا ہواہے۔اگر کوئی ڈونرتین ماہ کے بعد یا چھ مہینوں میں ایک مرتبہ خون کا عطیہ دے یا سال میں ایک بار دے تو اس کے جسم پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ الٹا اس کی صحت اچھی ہو جاتی ہے۔خون دینے سے کوئی نقصان نہیں ہاں فائدہ ضرور ہوتا ہے۔
بلڈ چین کی تنظیم نے نشتر ہال پشاور میں اپنے سالانہ کنونشن کا بندوبست کیا۔ پورے ملک سے بلڈ ڈونرز کو دعوت دی۔ان کو ایوارڈ بھی دیئے۔انھوں نے ہم میاں بیوی کو بھی دعوت دی۔ میری اہلیہ کو پچاس سے زائد مرتبہ خون کا عطیہ دینے پر اور مجھے 137مرتبہ یہی خدمت سرانجام دینے پر شیلڈ سے نوازا۔جب تک بلڈ ڈونرز کی پذیرائی نہ کی جائے تو دوسروں کو اس سے اچھا سبق نہیں ملتا۔اس نیک کام کی جتنی مشہوری کی جائے یہ کام عام معاشرہ میں اتنا ہی پھیلے گا۔
عام پبلک بھی اس طرف راغب ہو گی۔بعض حضرات میرے اس کام پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ اپنے خون کے عطیہ کو مشہور کیوں کرتے ہیں۔اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ میں بلڈ ڈونر میں ورلڈریکارڈ قائم کر کے بھی خدا کے فضل و احسان سے ٹھیک ٹھاک ہوں تو آپ کم از کم ایک مرتبہ بھی خون کا عطیہ کیوں نہیں دیتے۔