الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کم سے کم ممکنہ وقت میں انتخابی حلقہ بندی (حد بندی) کا عمل مکمل کرنے پر غور شروع کر رکھا ہے۔ یہ عمل بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ ہے اور آئین میں لکھا ہے کہ جب بھی وفاقی حکومت اِسے کہے گی یہ انتخابات کا انعقاد کرے گا اِس لحاظ سے الیکشن کمیشن کی یہ آئینی اور بطور ادارہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی تیاری مکمل رکھے اور یہ تیاری اِس قسم کی ہونی چاہئے کہ یہ تین ماہ (نوے روز) میں عام انتخابات کا انعقاد کر سکے لیکن جب ہم الیکشن کمیشن کی آئینی و بنیادی ذمہ داری کی بات کرتے ہیں تو زیادہ تر مواقع پر اس نے اپنی بھر پور کارکردگی کا ثبوت دیا ہے اور مشکل حالات میں انتخابات کے انعقاد کو موثر انداز میں ممکن بنایا ہے تاہم کچھ مواقع پر مسائل و مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک ضمنی پہلو‘ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سابقہ قومی انتخابات (سال دوہزار اٹھارہ) کے بعد قریب دو کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز کا اضافہ ہو چکا ہے اور اِس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق دینے کیلئے قانون منظور کر لیا ہے لیکن اِس رائے دہی کا طریقہ کیا ہوگا اِس بارے میں کام نہیں کیا گیا اور اب جبکہ 90 دن میں انتخابات کی بات ہوتی ہے تو الیکشن کمیشن کو صرف 90 دن نہیں بلکہ 90 راتیں بھی شمار کرتے ہوئے کام کرنا ہوگا تاکہ ایک بظاہر کم وقت میں ناممکن دکھائی دینے والے انتخابات کو ممکن بنایا جا سکے۔اطلاعات ہیں کہ الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کی تحلیل سے پیدا ہونے والے آئینی بحران اور سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک عدم اعتماد و اس کے بعد اسمبلی کی تحلیل سے متعلق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے فیصلے کے بارے میں کسی نتیجے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ساتھ ساتھ انتخابات کی تیاریوں پر تبادلہ خیال بھی ہو رہا ہے جن کی زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ الیکشنز ایکٹ 2017ء کی دفعہ 17 (2) الیکشن کمیشن کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ ہر مردم شماری کے بعد‘ جب اُسے مردم شماری کے نتائج سے باضابطہ طور پر مطلع کر دیا جائے تو اِس کے بعد انتخابی حلقہ بندیوں پر نظرثانی کرے اور جہاں ضرورت ہو وہاں نئی حلقہ بندیاں کی جائیں۔ یہ عمل بظاہر جس قدر آسان دکھائی دیتا ہے حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ حلقہ بندیوں میں معمولی سا ردوبدل بھی سیاسی جماعتوں کیلئے جیت ہار کا باعث بن سکتا ہے۔ گزشتہ سال مئی میں مردم شماری کے حتمی نتائج شائع ہونے کے بعد بھی کمیشن نے حد بندی نہیں کی‘ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تحریک انصاف نے 2023ء میں انتخابات سے قبل ’نئی مردم شماری‘ کروانے کا اعلان کر دیا تھا اگرچہ الیکشن کمیشن وضاحتی بیان جاری کر چکا ہے کہ اِس نے 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا جس طرح کہ سوشل میڈیا پر بتایا جا رہاہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہیں بتایا کہ کمیشن کی جانب سے یہ نہیں بتایا جا رہا کہ کیا وہ تین ماہ میں انتخابات کرانے کیلئے تیار ہے یا نہیں؟ اِس لئے ابہام بہت ہیں۔ ملک کی موجودہ تبدیل شدہ صورتحال میں نئی مردم شماری کا انتظار نہیں کیا جاسکتا اور الیکشن کمیشن کو فوری نتیجے پر پہنچنا ہے کہ جلد از جلد انتخابی حلقہ بندی (حد بندی) کا انتظام کیسے مکمل کیا جائے کیونکہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے!