احساس ذمہ داری

ماہ رمضان کے بابرکت دن ہیں تاہم ایسے میں اشیاء کے نرخوں میں کمی کی بجائے اضافے کا سلسلہ جاری ہے  اور معمول میں جو اشیاء ہم خرید سکتے ہیں وہ بھی ان دنوں قوت خرید سے باہر ہوجاتی ہیں۔اور ممالک کے بارے میں سنتے ہیں کہ خاص دنوں اور مواقع پر وہاں کے تاجر اور دکاندار اشیائے صرف کی قیمتوں میں رضاکارانہ طور پر کمی کر دیتے ہیں،ہم کیا کرتے ہیں وہ آپ سب کو معلوم ہے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔اس طرح  اشیا ئے خوردنی میں ملاوٹ بھی وہ مرض ہے جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ اور جو بھی چیز خریدیں یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ کس قدر خالص ہے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ ہم میں احساس ذمہ داری بہت کم ہے جو بھی جس شعبے میں کسی بھی ذمہ دار عہدے پر فائز ہے وہ کوتاہی کا مرتکب ہورہا ہے ورنہ ان تمام مسائل و مشکلات کیلئے جن کا اوپر ذکر ہوچکا ہے، محکمے موجود ہیں اور ان میں بڑی تعداد میں اہلکار بھرتی کئے گئے ہیں۔ایک طرف وہ غفلت بھرت رہے ہیں تو دوسری طرف ہم   میں سے ہر ایک انفرادی ذمہ داری سے پہلو تہی کا مرتکب ہورہا ہے، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ،ہم سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کااحساس جس دن ہوگیا اس دن سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔اب کچھ تذکرہ عالمی منظر نامے کا، جہاں امریکی فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مغرب کو یوکرین میں ایک بہت طویل تصادم کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے امریکی کانگریس کو گزشتہ روز بتایا کہ یوکرین میں روس کی جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہمیں سمجھتا ہوں کہ یہ تصادم بہت طویل ہوگا اور میرے خیال میں یہ برسوں تک جاری رہ سکتا ہے۔جنرل ملی نے کہا کہ یوکرین کو مدد کرنے والے امریکہ اور دیگر ممالک بھی کچھ وقت کیلئے اس میں شامل ہوجائیں گے۔جنرل مارک ملی نے مشورہ دیا کہ امریکہ کو مشرقی یورپ میں اپنے مستقل ٹھکانے قائم کرنے چاہئیں لیکن فوج کو مستقل طور پر کسی ایک جگہ تعینات کرنے کے بجائے انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کرتے رہنا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ میرا مشورہ ہوگا کہ مستقل ٹھکانے قائم کیے جائیں لیکن فورسز کا قیام مستقل نہ ہو۔ اس طرح آپ ایسے مستقل ٹھکانوں کے ذریعہ فورسز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیج کر بھی مستقل نوعیت کے فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بالٹک ریاستیں رومانیہ اور پولینڈ اس طرح کے فوجی اڈوں کے اخراجات برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں۔دوسری طرف امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بتایا کہ مشرقی یورپ میں امریکی فوج کی موجودگی میں توسیع کے کام میں پیش رفت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جون میں نیٹو کی سربراہی کانفرنس میں اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔اس طرح یہ حقیقت واضح ہوتی جارہی ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے روس کو ایسی جنگ میں مصروف کر دیا ہے یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ایسی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جس کا اختتام جلد ہونے کا امکان نہیں اور یہ ایک بارپھر روس کو اسی طرح معاشی طور پر نقصان پہنچانے کی حکمت عملی  اختیار کی گئی ہے جس طرح سوویت یونین کو افغانستان میں پھنسا کر اسے شکست و ریخت کا شکار بناد یا گیا تھا۔