بھارت میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور آئے روز ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جس میں مساجد کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہاتھوں میں زعفرانی رنگ کے جھنڈے تھامے ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے مسجد کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔یہ بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر غازی پور کے گاؤں گہمار میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسجد کے تقدس کو پامال کرنے کی ایک ویڈیو ہے۔ ہجوم میں شامل افراد نہ صرف جے شری رام کے نعرے لگارہے ہیں بلکہ مسجد کے اوپر چڑھ کر اور ارد گرد خوفناک طریقے سے رقص بھی کررہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہے وہاں پر مسلمان بہت کم تعداد میں رہتے ہیں اور یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہندوؤں کے مذہبی تہوار نوراتری کے موقع پر ہندو توا کے ایک گروہ نے ریلی نکالی جس میں شامل لوگوں نے مسجد پر زعفرانی رنگ کے جھنڈے لہرائے اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔ 5 منٹ تک مسجد میں موجود ہجوم نے مسجد پر رنگوں کا چھڑکا ؤکیا۔
دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے حلال مصنوعات کو اقتصادی جہادقرار دیا ہے اور ساتھ ہی ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ گروپوں نے ہندوؤں کو حلال مصنوعات بشمول گوشت سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی جنوبی ریاست کرناٹک میں حجاب اور مندروں کے اطراف میں مسلم تاجروں کو دکانیں نہیں دینے کے تنازعے کے بعد اب حلال مصنوعات کا تنازعہ پیدا کردیا گیا ہے۔ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس نے ہندؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ حلال گوشت نہ خریدیں۔ مسلمانوں کے خلا ف تازہ ترین مہم کو ہوا دیتے ہوئے ہندوؤں سے اپیل کی گئی کہ وہ حلال گوشت فروخت کرنے والے مسلمانوں کی دکانوں سے خریداری نہ کریں آر ایس ایس سے وابستہ ہندو انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ تصدیق شدہ حلا ل مصنوعات کی خریداری کا مطلب ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کرنا ہے۔حالیہ مہینوں میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور سری رام سینے جیسی متعدد شدت پسند ہندو تنظیمیں حلال مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت میں پوری شدت کے ساتھ میدان میں آگئی ہیں۔بی جے پی کے جنرل سیکرٹری سی ٹی روی نے بھی ان تنظیموں کی حمایت کرتے ہوئے حلال اشیا کے استعمال کو اقتصادی جہاد قرار دیا
اور کہا کہ اگر مسلمان غیر حلال گوشت کھانے کیلئے تیار ہوں تو ہندو بھی حلال گوشت استعمال کریں گے۔شدت پسند ہندو تنظیم سری رام سینے کے سربراہ پرمود متالیک نے بھارت کو حلال سے پاک ملک بنانے کی اپیل کی۔دوسری طرف عالمی منظر نامے پر روس یوکرین کا تنازعہ چھایا ہوا ہے جہاں پیوٹن کے ناقدین ان پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ سویت یونین کی نشاط ثانیہ کر کے سوویت امپائر soviet empire کو پرتگال تک بڑھانا چاہتے ہیں یورپ کے کئی ممالک روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانے سے گریزاں نظر آ رہے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ اس کے رد عمل میں روس کہیں ان کو گیس کی سپلاہی نہ بند کر دے جس سے وہ انرجی کے بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کا میڈیا پیوٹن کو دور حاضر کا ہٹلر قرار دے رہا ہے۔
آ ج اگر چین روس کے شانہ بشانہ کھڑا نہ ہوتا تو شاید پیوٹن کو اتنی سیاسی تقویت نہ ملتی کہ جس کا وہ مظاہرہ کر رہا ہے وہ یوکرائن کے تنازعے پر اپنے دشمنوں کو اپنی جوتی کی نوک پر ماررہا ہے اس نے یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں اس کے اتحادی ممالک کے تلوں میں اتنا تیل نہیں ہے کہ وہ روس کے سامنے کھڑے ہو سکیں چنانچہ یوکرین کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد اب پیوٹن ان باقی ماندہ وسطی ایشیائی ممالک کی خبر لے گا کہ جو امریکہ کی سازش کا شکار ہو کر1980کی دہائی میں سوویت یونین سے علیحدہ ہو گئے تھے سویت یونین کا جب شیرازہ بکھرا
تو امریکی صدر نے یہ دعوی کیا کہ اب دنیا یو نی پولرunipolar ہو گئی ہے پر اسے یہ اندازہ نہ تھا کہ چین کی شکل میں ایک ایسا ملک اُبھرے گا کہ جو ہر میدان میں حیرت انگیز ترقی کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دے گا اور روس میں پیوٹن کی شکل میں ایک ایسا لیڈر اقتدار میں آ ے گا کہ جو امریکہ کو اینٹ کا جواب پتھر سے دے گا۔