پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب جس کی آبادی تقریبا ایک کروڑ بیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے‘ اپنے آبی وسائل کی بدولت دیگر صوبوں کے مقابلے نسبتا ًترقی یافتہ صنعتی بنیاد اور بہتر زرعی پیداواری صلاحیت رکھتا ہے لیکن ترقی کا یہ مفہوم ادھورا ہے اگر اِس میں تعلیم اور شرح خواندگی میں خاطرخواہ‘ حسب ضرورت یعنی حسب حال بہتری شامل نہیں ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ اگر پنجاب جیسا وسائل رکھنے والا صوبہ اپنے ہاں تمام بچوں کیلئے تعلیم کا بندوبست نہیں کر پا رہا تو اِس سے طرز حکمرانی اور تعلیمی انتظامات کے تصور مجروح ہوتے ہیں۔ رواں ہفتے صوبہ پنجاب کی تعلیمی صورتحال سے متعلق سالانہ رپورٹ (اے ایس ای آر) جاری ہوئی ہے جس کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے اِس سب سے بڑے صوبے کے دیہی اضلاع میں سکول جانے والی عمر کے بچوں کی چودہ فیصد تعداد ایسی ہے جو تعلیم حاصل نہیں کر رہے یعنی چودہ فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں!
لمحہئ فکریہ ہے کہ جب ہم موجودہ سالانہ رپورٹ کا موازنہ گزشتہ برس کی سالانہ رپورٹ سے کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سکولوں سے استفادہ نہ کرنے والوں بچوں کی تعداد میں ”پانچ فیصد“ اضافہ ہوا ہے۔ روایتی طور پر پنجاب میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں زیادہ تعداد میں سکولوں سے باہر ہیں لیکن اب یہ رجحان بدل گیا ہے۔ پہلی بار صوبے کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں سے زیادہ لڑکے سکول نہیں جا رہے۔ لڑکی یا لڑکے سے قطع نظر‘ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے اور فوری کاروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔ پاکستان موجودہ برس (سال دوہزاربائیس میں) اپنے قیام کی 75وی سالگرہ منا رہا ہے اور یہ ہمارے تعلیمی منتظمین کے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہونا چاہئے جو آفاقی شرح خواندگی حاصل نہیں کر سکے ہیں! رواں صدی کے اوائل میں دوہزاردس تک مکمل خواندگی کے حصول کے مقصد سے متعدد اقدامات شروع کئے گئے تھے اور بلند بانگ دعوے سننے میں آئے اور اب جب کبھی کسی حکومتی اہلکار کے منہ سے تعلیم و خواندگی میں بہتری اور سکولوں سے باہر بچوں کو سکولوں کے اندر تعلیمی ماحول سے روشناس کرانے کا دعویٰ سننے میں آتا ہے
تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا آخر کب ہوگا کہ تمام بچے سکولوں جانے لگیں گے اور بچوں کو تعلیم دلوانا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ ہمارے تمام بچوں کو سکولوں میں داخل نہ کر سکنے کی ایک بڑی وجہ غربت میں اضافہ ہے۔ جب غریب خاندانوں کیلئے اپنے بچوں کو دو وقت کا کھانا دینا‘ ہر دن پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے تو ایسی صورتحال میں اُن سے کس طرح اِس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکولوں میں بھیجیں گے جبکہ اُن کی ضرورت بچوں سے محنت مزدوری ہوتی ہے تاکہ گھر کا معاشی نظام چل سکے۔ پاکستان کی کل آبادی کا قریب پانچواں حصہ ”انتہائی غربت“ میں زندگی بسر کر رہا ہے اور یہی وجہ سے بچوں سے مشقت (چائلڈ لیبر) کی شرح زیادہ ہے۔ کورونا وبا کے آغاز کے بعد سے یہ صورتحال مزید خراب ہوئی ہے جس نے نچلے سماجی و اقتصادی طبقات سے تعلق رکھنے والے بہت سے خاندانوں کی معاشی صلاحیت کو ختم کردیا ہے۔
پنجاب میں بچوں کے سکولوں میں داخلے (انرولمنٹ) سے متعلق کئے گئے تمام دعوے اور کام اِس لئے خاطرخواہ نتائج نہیں دے پا رہے کیونکہ منصوبہ بندی سے لیکر عمل درآمد تک کارکردگی نہیں بلکہ شروع دن سے مالی وسائل پر نظر رکھی جاتی ہے اور یہ المیہ صرف پنجاب ہی کا نہیں بلکہ دیگر صوبوں بشمول خیبرپختونخوا کا بھی ہے‘ جس کے نتیجے سب کے سامنے ہے کہ بچوں کی بڑی تعداد سکول جانے سے محروم ہے۔ بغور دیکھا جائے تو اب یہ مسئلہ سکولوں یا اساتذہ کی عدم دستیابی کا نہیں رہا بلکہ اِس کا گہرا تعلق والدین کی انتہائی حد تک خراب مالی صورتحال کا ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا ناقص تدریسی معیار اپنی جگہ لمحہئ فکریہ ہے جہاں مارپیٹ ہوتی ہے۔ جہاں اکثر اساتذہ کا رویہ شفقت بھرا نہیں ہوتا۔ جہاں ایک کمرے کی گنجائش سے بھی زیادہ بچوں کو ٹھونس دیا جاتا ہے اور یہ سبھی عوامل درس و تدریس کے عمل کو بے معنی بنا رہے ہیں! جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی اور صوبائی سطح پربجٹ سازی کی مشق قریب ہے جبکہ ملک میں جاری سیاسی و آئینی بحران بھی جلد حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تو ایسی صورت میں سرکاری اداروں کو پرکشش بنانے کے لئے تعلیمی وظیفہ اور تعلیمی اداروں میں کھانے کی پیشکش سے پرائمری تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے جس کیلئے زیادہ مالی وسائل درکار ہیں۔ لیکن جہاں دیگر شعبوں کیلئے تو فنڈز کی فراوانی ہو لیکن وہاں زیرتعلیم بچے غیرمعیاری تعلیم حاصل کر رہے ہوں اور بچوں کی ایک تعداد تعلیمی اداروں سے استفادہ بھی نہ کر رہی تو اِس موقع اور صورتحال میں ’قومی ترجیحات‘ پر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے مقصد کا حصول اور اِس نظریاتی ملک کی معنوی تکمیل کس طرح ہوگی؟۔