شہر کے وہ رہائشی جو اپنے آشیانے شہر سے باہر منتقل کر بیٹھے ہیں۔ وہ بہ امرِ مجبوری وہاں رہائش رکھے ہوئے ہیں۔مگر ان کو اپنا جیون جوگ شہری ماحول ہمہ وقت یاد رہتا ہے۔ان دنوں تو پشاور کے گلی کوچوں اور بازاروں میں وہ ہجوم ہے کہ پھرنہ ہی کسی تقریب میں اندرون ِ شہر وقت پر پہنچ سکا اور نہ ہی وہاں سے گھر کو اپنی پلاننگ کے مطابق لوٹ سکا۔جو اندرونِ شہر کی بستیوں میں رین بسیرا کئے بیٹھے ہیں۔ وہ اگر اپنی شارٹ سی لوکیل میں گھوم پھر لئے۔ سودا سلف لے کر واپس اپنے نشیمن میں آن پہنچے تو پھر بڑے مزے کی زندگی ہے۔مگر جو شہر کے مصروف ترین بازاروں میں جانا چاہتے ہیں۔خواہ ہوا خوری کیلئے ہویا کہیں سودا سلف لینا ہو۔پھرشہر کے باہر سے آئے مہمانوں کو سیر کرانا مقصودہو۔وہ بہت تنگ ہوں گے۔جوفضول گھومنے پھرنے کے عادی نہ ہو ں وہ تو بہت پریشاں حال ہو کر واپس گھر کی دہلیز میں قدم رکھیں گے۔یہاں تو کاندھے سے کاندھا ٹکراتا ہے۔کہیں گاڑیاں کہیں گدھا گاڑیاں کہیں لوڈنگ ان لوڈنگ کہیں دن کی روشنی میں بھی بڑے ٹرک گھسے ہوئے ہیں۔پھر کہیں رکشوں کی ٹرین ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ہر طرف ایک ہاہاکار ہے۔بندہ بندے کا دشمن ہوا جاتا ہے۔رش کے کارن سرکاری عملے کی جانب سے رستوں میں کتر بیونت کی گئی ہے
جیسے درزی کسی جوڑے کی سلائی کرنے کو قینچی اٹھائے اور کپڑے کی کانٹ چھانٹ کرے۔مگر غلطی ہو جائے اور گاہک کے تن بدن کے ناپ کے مطابق سلائی نہ ہو پائے۔ گاہک الگ لال پیلا ہوتا ہو اور دکاندار جدا پریشان کہ اب کیا کرے۔اسی طرح شہر کی سڑکوں کو سرکاری عملے نے چھان پھٹک کے بعد الگ الگ کیا ہے تاکہ ہر ایک کا رستہ جدا جدا ہو۔مگر اس احتیاط اور سمجھ کے باوجود اس سخاوت کے ہوتے ہر رستے ہر کوچہ میں مستقل بھیڑ بھاڑ کا وہ عالم ہے کہ پاؤں رکھو تو جا نہ پاؤ۔اس شہر میں سلسلہ وار وہ دشواریاں ہیں کہ ایک جگہ سے شہر میں داخل ہو او ردوسری طرف جا نکلنا چاہو تو اندر ہی پھنس کر رہ جاؤ۔ وہ اچھے ہیں جن کو شہر کے رستوں کی بابت خوب جانکاری حاصل ہے۔اگر ایک راستہ بند ہو تا ہے تو وہ دوسرے کو منتخب کر کے وہاں اپنی گاڑی کو چڑھ دوڑنے میں آگے آگے ہوتے ہیں۔اس ٹریفک کا مختصر سا اور ون لائن فارمولا یہ ہے کہ جس کا جہا ں بس چلتا ہے اپنی بس جیسی گاڑی گھسیڑ تا ہے۔جو جہاں سے آ رہاہے اس کو نہ روکنے والا کوئی ہے اور نہ اس کو ٹوکنے والا کہ بھیا آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔
ہر ایک اپنا راستہ نکالنا چاہتا ہے۔میں نکلوں باقی دیکھا جائے گا۔ کسی کو ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری نہیں۔ٹریفک کا عملہ ہے تو شا م گئے راستوں کو خالی کر کے گھروں کو آرام کیلئے چلا جاتاہے۔ اس وقت تو شہریوں کا بھرپور راج ہوتاہے۔ان کو ٹریفک سینس پہلے ہی سے حاصل نہیں کہ وہ ازخود ٹریفک کے مسائل کو سامنے رکھ کر اس شہر کی بے ہنگم ٹریفک کی بھول بھلیوں میں سے بہ امن و امان خود بھی نکل چلے اور دوسروں کو بھی موقع دیں کہ وہ سہولت سے اپنا راستہ تلاش کرلیں۔جہا ں دن کو ٹریفک کے عملے کی موجودگی میں بے قاعدگی کاایک بازار گرم ہو واں رات کو کون کیا پروا کرے گا۔اپنے شہر کی سیر کرنا ہو تو آج کل اس پہاڑ کو راستے سے ہٹانا مشکل ہے۔ دن کو اس بھیڑ بھاڑ میں اپنے آپ کو دکھی کر کے گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ گاڑی میں ہو ں تو کیسے دائیں بائیں دیکھیں۔آگے آگے دیکھنا ہے کہ ہوتا ہے
کیا۔کیونکہ اگرآپ کی نظر سیر بینی کے جرم کی مرتکب ہوئی تو کہیں گاڑی سے کسی کوتوڑ پھوڑ دیں گے۔پھر آپ کی گاڑی سے کسی کی ٹکرہو سکتی ہے۔یہاں تو پیدل چلنے والوں کو راہ سجھائی نہیں دیتی تو موٹر گاڑیوں اور رکشوں چنگ چی موٹر سائیکلوں سوزوکیوں کو کون رستہ دے گا۔ سب ایک دوسرے کا حق مارنے کیلئے بیتاب نظر آتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کا راستہ بند کر کے خود آگے بڑ ھ جانے پر فخر کریں گے۔ جیسے پاور جنگل کاقانون ہوتا ہے۔اسی طرح اس شہر کے ٹریفک کے جنگل میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات ہے۔جو جلدی سے نکل گیا وہ اچھا ہے۔جس نے اصول کی پروا کی یونہی گاڑیوں کے درمیان میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہے گا راہ نہ پاوے گا۔ایسے عالم میں ڈمپر اور شاول ٹریکٹر ٹرالیوں کا الگ سا راج ہے۔ایسے میں شہری جہاں ہیں وہیں ساکت و جامد ہو کررہ گئے ہیں۔سوچ سمجھ کرگھر سے باہر قدم نکالتے ہیں۔اس لئے کہ گھر سے نکلنا تو آسان ہے۔ مگر واپسی کا سفر اتنا آسان نہیں۔