اجتماعی ذمہ داری

کسی بھی شہر چلے جائیں خالی پلاٹوں پر آپ کو کچرے کا انبار نظر آئے گا‘کچرے کی پہاڑیوں سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہو رہی ہے‘ نہ عام آدمی میں احساس ذمہ داری ہے اور نہ میونسپل کمیٹیوں کا عملہ روزانہ کی بنیادوں پر گلیوں‘نالیوں اور سڑکوں پر سے کچرا اٹھا رہا ہے ایک دور ایسا بھی تھا کہ میونسپل کمیٹی والے صبح کی پہلی روشنی سے پہلے سڑکوں‘گلیوں اور نالیوں کی مناسب صفائی بھی کرتے اور ان پر ماشکیوں یا ٹینکروں کے ذریعے چھڑکاؤ بھی‘اب ایک عرصے سے یہ تکلیف کوئی نہیں کر رہا‘ پتہ نہیں کہ فنڈز کی کمی ہے یا جس تیز ی سے شہر پھیلے ہیں اس حسا ب سے میونسپل کمیٹی کے صفائی ستھرائی کرنے والے عملے کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا‘ یہ مسئلہ اس ملک کے ہر شہر کا ہے کسی ایک شہر کو سنگل آؤٹ نہیں کیا جا سکتا‘ مہذب معاشروں میں بازاروں میں ہر فرلانگ کے فاصلے کے بعد اور مارکیٹوں میں صاف ستھرے رواں پانی کی فراوانی کے ساتھ واش رومز آپ کو ملیں گے‘ شاپنگ کیلئے آئے ہوئے خریداروں خصوصاً بچوں‘خواتین‘ بوڑھوں اور بیماروں کو وقفے وقفے سے بیت الخلاء کی ضرورت پڑتی رہتی ہے

اپنے ہاں تو کسی کو اس بات کا رتی بھر احساس ہی نہیں‘ایک مہذب اور غیر مہذب معاشرے میں یہی تو فرق ہوتا ہے‘چاہئے تو یہ تھا کہ ہم اس بات کا زیادہ خیال رکھتے کیونکہ ہمیں کہاگیاہے کہ صفائی نصف ایمان ہے لیکن اس معاملے میں بھی ہم دوسرے معاشروں سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں‘اس ملک میں موٹرویز غالباً واحد جگہ ہے جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر صاف ستھرے واش رومز کی سہولت مسافروں کو دستیاب ہے‘ اس سہولت کو اگر عام کر دیا جائے تو نہایت مناسب ہوگا‘ اس مسئلے کیساتھ جڑا ہوا مسئلہ زرعی اور صنعتی آلودگی کا بھی ہے کہ جو اپنا دامن پھیلا رہا ہے‘ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر اس پر بریک نہ لگائی گئی تو آئندہ پچیس برس میں سمندروں اور دریاؤں میں مچھلیاں کم اور پلاسٹک زیادہ ہو گا‘یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ تین چوتھائی کرہ ارض کا جو حصہ ہے وہ پانی کے نیچے ہے اس دنیا میں رہنے والوں کی ایک کثیر تعداد انہی آبی ذخائر سے خوراک حاصل کرتی ہے

بات یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سمندر ایک بڑی حد تک ہمارے موسم‘درجہ حرارت اور آب وہوا پر بھی اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا سمندروں کی حفاظت بھی ہم پر اسی طرح لازم ہے کہ جتنی خشکی کی‘ افسوسناک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ہم سمندروں کو صنعتی‘ زرعی اور جوہری فضلے سے گندا کر رہے ہیں‘ ان سے سمندری حیات برباد ہوتی ہے‘ یہ جو ہم سمندر میں پلاسٹک پھینک رہے ہیں اسے مچھلیاں کھا رہی ہیں اور یہ عمل انسانی صحت کیلئے نہایت مضر ہے‘یاد رہے کہ سمندر آبی حیات کی وجہ سے زندہ ہیں اگر سمندرکی موت واقع ہوگئی توکائنات کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے‘اس بات کا بھی پتہ چلا ہے کہ مچھلیوں کا بے دردی سے شکار کیا جا رہا ہے‘ سمندر کو زرعی‘ صنعتی فضلے اور پلاسٹک سے بچانے کیلئے ایک منصوبے کی ضرورت ہے‘ کارخانوں سے نکلنے والا دھواں آبی بخارات کیساتھ مل کر تیزابی بارش برسانے کا سبب بن رہا ہے‘ یہ سب عوامل مل کر دنیا کو رہائش کیلئے مشکل سے مشکل بنا رہے ہیں اور اس سب کے ذمہ دار ہم خود ہیں تب ہی ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی آفت دنیاکواپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔