ہنوز دلی دور است

الیکشن کمیشن آف پاکستان کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ ”الیکشن کمیشن آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے پوری طرح واقف ہے اور اس کے مطابق انتخابات کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہمیشہ آئین کے مطابق اپنے تمام فرائض انجام دیتا ہے۔“ انہوں نے نشاندہی کی کہ سابق فاٹا کے انضمام کے بعد قومی اسمبلی کے حلقے 272 سے کم ہو کر 266 رہ گئے ہیں جس سے اس کی این اے کی نشستیں بارہ سے کم ہو کر چھ ہو گئی ہیں اور ایسی صورتحال میں انتخابات کے انعقاد سے قبل حد بندی (انتخابی حلقہ بندیاں) ناگزیر ہیں۔الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ قانون میں فراہم کردہ انتخابات کی ٹائم لائن پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکا کیونکہ ایسا کرنا انتخابات کے معیار پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہوگا تاہم ان تمام حقائق کے باوجود الیکشن کمیشن پہلے ہی چاروں صوبائی الیکشن کمشنروں کو صدر کی طرف سے قومی اسمبلی کی تحلیل سے پیدا ہونے والی صورتحال اور آرٹیکل 224 کی ذیلی چوتھی شق کے تحت پیدا ہونے والی صورتحال سے آگاہ کر چکا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے تحلیل کی جاتی ہے ساٹھ دن کے اندر انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری بنتی ہے۔ ملک میں وسط مدتی انتخابات کا خطرہ بظاہر ٹل گیا ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی سپیکر کی وساطت سے سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیا ہے

لیکن پاکستان کی سیاست میں پائے جانیوالے ”سرپرائز“ کے عنصر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ صورتحال اِس بات کی متقاضی ہے کہ ”الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں“ اور ”انفارمیشن ٹیکنالوجی“ کی بنیاد پر ایک ایسا انتخابی طریقہئ کار وضع کیا جائے جو شفافیت کے ساتھ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) سے بھی لیس ہو۔ وہ وقت یقینا دور نہیں جب ووٹروں کی اکثریت اپنے موبائل فون سے گھر بیٹھے‘ چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے اور عوام کی رائے (ووٹنگ) صرف قومی و صوبائی پارلیمان کے اراکین کے انتخابات ہی کے لئے نہیں بلکہ دیگر قومی مسائل کے بارے عوامی رائے جاننے کا ذریعہ بھی ہونگے۔ تحریک انصاف چاہتی تھی کہ ہر پاکستانی کا ووٹ شمار ہو۔ انتخابات دھاندلی سے پاک ہوں اور اِس عمل میں غیرضروری رازداری ختم کی جائے لیکن اِس تین سطحی انتخابی اصلاحات کے مقابلے حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں ایسی انتخابی اصلاحات چاہتی ہیں‘ جن میں ووٹروں کی بائیومیٹرک تصدیق اور انٹرنیٹ و انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بجائے روایتی طرز انتخاب برقرار رہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا آئینی طور پر حق تو مل چکا ہے لیکن عملاً اِس میں ابھی بہت پیشرفت باقی ہے۔”ہنوز دہلی دور است!“