بھارت اب تک یوکرین پر حملے کے باوجود روس پر تنقید کرنے سے گریز کررہا تھا مگر اب مغربی دباؤ کے بعد اس نے گھٹنے ٹیک دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں اس کی مذمت کردی ہے تاہم یہاں بھی اس نے روایتی عیاری سے کام لینے اور سب کو خوش کرنے کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین پر ہونے والے اجلاس میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی نے کہا ”یوکرین کے شہر بوچا میں عام شہریوں کی حالیہ ہلاکتیں پریشان کن ہیں۔ نئی دہلی اس کی سخت مذمت اور آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت کو یوکرین کی مسلسل خراب ہوتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش ہے اور وہ تشدد کے فوری خاتمے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتا ہے۔“ادھر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا میں بوچاہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔واضح رہے یوکرین کے دارالخلافہ کے مضافاتی قصبے بوچا میں روس کی بمباری میں عام شہریوں کی سینکڑوں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ بھارت نے اگرچہ یوکرین میں عام شہریوں کی ہلاکت کی پہلی بار ”مذمت‘‘کی ہے مگر اپنی روایتی عیاری سے کام لیتے ہوئے اس نے روس کا نام نہیں لیا۔اس کے موجودہ موقف کا مطلب یہ ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتیں پریشان کن ہیں لیکن ہم روس کی مذمت نہیں کریں گے کیونکہ اسے ذمہ دار قرار دینے کیلئے تحقیقات درکار ہیں۔امریکہ نے بار بار بھارت سے کہا تھا کہ وہ یوکرین پر روسی جارحیت کی مذمت کرے مگر بھارت اب تک نہ صرف روس کی مذمت سے اجتناب کررہا تھا بلکہ اس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہوتے ہوئے بھی وہاں اور دیگر جگہوں پر روس کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا
اور پابندیوں کے باوجود اس نے روس سے درآمدات بڑھا دی ہیں۔بھارت روس یوکرین تنازع پر اب تک غیر جانبداری دکھا رہا تھا۔ امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک کے حکام نے یوکرین حملے پر بھارت کے ردعمل پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ بھارت کے تازہ موقف کے بعد اگرچہ بھارتی اہلکار اور تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے مگر ایک بات تو واضح نظر آرہی ہے کہ بھارت اپنی بڑی مارکیٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس اور امریکہ دونوں سے فوائد سمیٹ رہا ہے۔ بھارتی اخبار ”دی ہندو“کے مطابق امریکی نائب مشیر قومی سلامتی برائے بین الاقوامی اقتصادیات دلیپ سنگھ نے کہا کہ بھارت سمیت کوئی بھی ملک اگر روس کے مرکزی بینک کے ذریعے روپے یا روبل میں لین دین کرتا ہے اور یوں ادائیگی میں روس پرامریکی پابندیوں کی خلاف ورزی یا اس میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو اس ملک کے لئے اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی اقتصادی کونسل کے ڈائریکٹر برائن ڈیز نے یوکرین پر بھارتی موقف کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ روس کے اس کے ساتھ زیادہ واضح تزویراتی صف بندی کے نتائج اہم اور طویل مدتی ہوں گے۔جب سے یوکرین پر حملے کے بعد روس پر پابندیاں لگائی گئی ہیں بھارت نے روس سے کم ازکم تیرہ ملین بیرل خام تیل درآمد کیا ہے جبکہ پچھلے پورے سال میں سولہ ملین بیرل کی درآمدات ہوئی تھیں۔روس بھارت کو عالمی مارکیٹ کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل کے برعکس صرف 25 سے 30 ڈالر فی بیرل میں دے رہا ہے۔امریکہ اور مغربی ممالک بھی بظاہر بھارت کی بڑی مارکیٹ سے محرومی کیلئے آمادہ نہیں ہے اس لئے انہوں نے بھی اس کی مجمل اور ناکافی مذمت کو کافی سمجھ لیا ہے اور اس کے نجی ارتباط کے ذریعے مسائل حل کرنے کے متمنی ہیں۔۔وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری جین ساکی کے مطابق روس سے توانائی کی درآمدات میں اضافہ بھارت کے مفاد میں نہیں ہے اور بائیڈن انتظامیہ بھارت کی کمی پوری کرنے کو تیار ہے۔