ماضی میں توجیسے وقت ہمارے قابو میں ہوتا تھا۔ہم گذارتے تو گذرتا‘پہلے وقت ہمارے آسرے پر تھاکہ ہم اسے گذار دیں۔ مگر اب تو ہم اس کے رحم وکرم پر ہیں کہ ہمیں گذارے یا پھر اس کی مرضی جیسے گذاردے۔اب تو اس یادداشت کے دل میں چٹکیاں بھرتے ہی ایک تیر سا دل پر چل جاتاہے۔اب ”وہ شب وروز ماہ و سال کہا ں“۔اب تو نئی نسل نے زندگی کی روشن شمع کو پرانی نسل کے ہاتھوں سے لے کرخود تھام لیا ہے۔موجودہ لوگ جو ہمارے بعد کے ہیں ہم سے آگے ہونے لگے ہیں۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے۔ اب تو نہ وہ رعنائی خیال ہے اور نہ ہی وہ ولولے ہیں مگر مصروفیات کی تنگ راہداریوں سے گذر کر یادوں کی غلام گردشوں کے احوال بس ماضی کی حسین شکل اختیار کر چکے ہیں۔”یاد کے بے نشان جزیروں سے۔ تیری آواز آ رہی ہے ابھی“۔ذہن کے برآمدوں میں ٹہلائی کر تے ہوئے وہ دور یاد آئے تو بس چپ سادھ لیتے ہیں۔ کیونکہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہیں۔اب وہ روایات وہ رسومات وہ حالات نہیں۔ہم نے وقت کا ساتھ نہ دیا تو ہم کہیں پیچھے رہ جا ئیں گے اور وقت آگے کو سرکتا جائے گا۔نئی پود کا تو ذہن اس قابل نہیں کہ وہ ہمارے دور کے پشاور بلکہ پشور کو خیالی طور پر ہی سہی مگر ذہن میں لا سکے لیکن اگر اپنی کوشش کر بھی لیں تو کیا۔ ان کو ہمارے ماضی کے ساتھ کیا دلچسپی ہے۔وہ تو جب ہماری عمر کے موجودہ پڑاؤ تک پہنچیں گے تو بات ان کے دل و دماغ کو لگے گی۔بس وہ روشنی مانند پڑ رہی ہے۔”حلقہ کئے بیٹھے رہو اس شمع کو یارو۔ کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے“۔ سو میں سے ستر فی صد کم لوگ ہیں
او رپشاور کی پرانی تصویر وہ بلیک وا ئٹ کے شیڈز لئے سینے سے چپکائے ہیں۔یہ لوگ نہ رہے تو اس سوھنے پشاور کی یاد بس کتابوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ جب بھی گذری یادوں کی پٹاری کھلے گی جب بھی اس کتاب کے اوراق الٹتے جائیں گے تب تب دل میں ہوک اٹھے گی وہ خوشبو جو ماضی کے دریچوں میں ہوتی تھی وہ جھونکا سا بن کر دل و جاں کو معطر کرے گی۔اب کا پشاو رتو بہت مختلف ہے۔نیا پشاور نئی تہذیب اور نئے رنگ ڈھنگ نئے لوگ اور نئے انداز۔پچھلا سب کچھ گیا خاک ہوا۔ سحری کے وقت والدہ کا کہنا جلدی کرو ملائی ختم ہو جائے گی جا ؤ کٹورا لے جاؤ اس میں ملائی لے آؤ۔ اس وقت تو شاپر وں کا دور دور تک وجود نہ تھا۔ پھر اگر ہم سُستی کا شکار ہو جاتے تو والد خود مونڈھے پر دستر خوان سجائے روٹیاں لینے نکلتے۔روٹی والے کی دکان کے تھڑے پر دستر خوان رکھتے۔ساتھ میں پانچ منٹ کی مختصر گپ شپ لگاتے۔وہیں دکان پر اہلِ محلہ میں سے اور بھی آ جاتے۔ان کے ساتھ بھی علیک سلیک ہوتی حال احوال پوچھے جاتے۔پھر گھر کو لوٹ آتے۔روٹی والے کو لواشیں لگانے کو کہتے۔جو آج کل کی روغنی سے اوپر کی عیش و عشرت والی روٹی ہوتی تھی۔جو اپنے سے انداز میں پکی ہوتی۔تندوروں پر بھی تو خالص پشوری عملہ ہوتا تھا۔ جو لواش بنانے پر قدرت رکھتا تھا۔پھر روغنیاں بنانے کو اپنا گھی دینا پڑتا تھا۔ چھوٹی کٹور ی میں گھر سے گھی لے جاتے او ر تندور پربطور ایڈوانس جمع کروا آتے۔
اسی گھی میں مکس کر کے جتنی روغنیاں درکار ہوتیں ہمارے حصے کے پیڑوں کو نئی مکی دے کر دمہ دینے کو تندور والے اپنے پا س رکھ لیتے۔اس زمانے کی توسادہ روٹی او رآٹے میں بھی ایک خمار ہوتا اور مزا ہوتا۔جو اب دور دور تک بھی دکھائی نہیں دیتا۔روٹی بھی بھاری ہوتی سستی بھی ہوتی۔پھر اگر گھنٹہ دو دستر خوان میں پڑی بھی رہے تو گتے جیسی نہ ہوجاتی جیسا کہ اب بن جاتی ہے۔پھر اب تو شاپر میں پڑی ہوئی اس طرح خستہ بھی نہیں رہتی جیسی کپڑے کے دستر خوان میں اس کی ترو تازگی بحال رہتی۔اب بھی خال خال او رکم کم یہ چیزیں ہیں۔جو شہر ہی میں تھوڑا باہر مگر دروازوں کے اندر موجود ہیں۔انٹرنل سٹی میں سے یہ چیزیں جیسے کسی نے اٹھوا دی ہیں۔دودھ کا ڈول ہاتھ میں ہوتا۔اب تو نہ وہ ڈول ہیں نہ ماں باپ رہے۔بس یادیں رہ جاتی ہیں چھوٹی چھوٹی باتیں رہ جاتی ہیں۔سب کچھ خاک ہو گیا۔ہم نے یہ سب کچھ دیکھ رکھا ہے۔مگر جب سے سائنس نے نئی نئی چیزیں دریافت کرنا اور ایجاد کرنا شروع کی ہیں۔تب سے ماحول یکسر بدل گیا ہے۔