پاکستان کے مرکزی مالیاتی ادارے (سٹیٹ بینک آف پاکستان) کے ایک حالیہ ہنگامی اجلاس میں شرح سود ڈھائی سو بنیادی پوائنٹس یعنی بارہ اعشاریہ پچیس فیصد کر دی گئی ہے جو ممکنہ مہنگائی (افراط زر) اور جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارے جیسے بحرانوں کو وقتی طور پر ٹالنے کی کوشش ہے جبکہ اِس طرح کے اشارے بھی دیئے گئے ہیں کہ یہ شرح سود مزید بھی بڑھائی جا سکتی ہے اگرچہ وقت کے ساتھ افراط زر کا دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن سٹیٹ بینک نے بنیادی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ محدود کرنے اور ڈالر خریداری یا اخراج کو روکنے کیلئے ہنگامی اقدامات کئے ہیں۔ بینک نے اشیاء کی بین الاقوامی قیمتوں اور عالمی مالیاتی حالات کے نقطہ نظر کے بارے میں بھی غیر یقینی صورتحال کا اعتراف کیا ہے جس کی شدت حالیہ چند ہفتوں میں روس یوکرائن تنازعہ کی وجہ سے بڑھی ہے۔ مرکزی بینک اپریل کے آخر میں ہونے والے مالیاتی پالیسی کمیٹی کی اگلی شیڈول نشست سے پہلے اجلاس کرنے کیلئے تیار ہے‘ اگر ضروری ہو تو بیرونی معاشی محرکات اور قیمتوں کے استحکام کے تحفظ کیلئے ضروری بروقت اور مربوط کاروائی کی جائے گی۔
پاکستان میں مہنگائی کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اِس کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے بیرونی استحکام کے خطرات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک کے حالیہ اقدامات سے ڈگمگاتی معیشت مستحکم ہوئی ہے لیکن چونکہ قومی ترقی کا ڈھانچہ کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے اِس لئے یقینی طور پر شرح سود میں اضافے سے بے روزگاری بڑھے گی۔بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کو معاشی ترقی تیز کرنے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے قومی مالیاتی ذمہ داریوں (بالخصوص بیرونی قرضہ جات) کی ادائیگیوں سے متعلق پیدا ہونے والے بحران کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔ مزید برآں‘ پہلے سے کمزور معیشت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے دباؤ میں ہے اور اِس کا کوئی پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یکم اپریل دوہزاربائیس کو سٹیٹ بینک کے پاس ڈالر کے اثاثے گیارہ اعشاریہ تین ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریبا پانچ ارب ڈالر کی کمی غیرمعمولی ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح سرمایہ کاروں کی اکثریت ملک میں سیاسی عدم استحکام کو جلد بہتر ہوتا نہیں دیکھ رہی۔
پاکستان کی معاشی صورتحال کو سہارا دینے کیلئے سٹیٹ بینک نے کرنسی مارکیٹ میں اپنی مداخلت کم کی ہے اور اِس سلسلے میں دو حربوں کا استعمال کیا گیا ہے یعنی ایک تو کرنسی کے شرح تبادلہ (ایکسچینج ریٹ) ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دی ہے جس کے باعث روپے کے مقابلے ڈالر مستحکم ہوا اور ایک وقت میں یہ 189 روپے فی ڈالر جیسی بلند سطح پر جا پہنچا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 195روپے سے زائد میں فروخت ہونے لگا۔ سٹیٹ بینک کے پاس فاریکس کے موجودہ ذخائر دوست ممالک کی جانب سے منجمند اثاثے (ذخائر) ہیں کیونکہ سعودی عرب نے تین ارب ڈالر‘ چین نے چار ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات نے دو ارب ڈالر فراہم کر رکھے ہیں اور یہ مجموعی طور پر 9 ارب ڈالر ہیں جو پاکستان کے پاس بطور امانت موجود ہیں۔ پاکستان کیلئے تشویشناک صورتحال یا پیش رفت ’جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارہ‘ ہے جو پہلے آٹھ ماہ (جولائی سے فروری) کے عرصے میں بارہ اعشاریہ تین ارب ڈالر رہا اور فروری دوہزاربائیس کے لئے کم ہو کر 545ملین ڈالر رہ گیا۔
جنوری دوہزاربائیس کے لئے یہ خسارہ دو ارب ڈالر سے زیادہ تھا تاہم گزشتہ ماہ (مارچ دوہزاربائیس) میں تجارتی خسارہ پھر بڑھ گیا اور اِس دوران درآمدات چھ اعشاریہ ارب ڈالر رہیں جبکہ ایک ماہ پہلے (فروری دوہزاربائیس) میں یہ درآمدات قریب چھ ارب ڈالر تھیں۔ تجارتی خسارہ بارہ فیصد بڑھ کر تین اعشاریہ چار ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اگر مارچ کیلئے تجارتی خسارہ بڑھ کر ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو گیا ہے تو وزارت ِخزانہ اور مرکزی بینک اِس خطرے کی گھنٹی سن رہے ہوں گے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پہلے ہی واضح طور پر اشارہ دے رکھا ہے کہ وہ پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی کی صورت کسی بھی نئی حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا یقینا کسی بھی سیاسی جماعت کی نئی حکومت کی پہلی کوشش یہی ہوگی کہ وہ ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ مذاکرات اور معاشی بحالی کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کرے کیونکہ موجودہ معاشی حالات میں صرف یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ جس کے ذریعے فوری طور پر بیرونی قرضہ جات اور اِن پر سود کی اقساط ادا کرنے کی جا سکے اور قومی معاشی پریشانیوں میں یہ بات انتہائی پریشانی کا باعث ہے کہ اب قرض ادا کرنے کیلئے قرض لینا پڑ رہا ہے۔