وہ ایک سپیرا تھا۔ گھوم رہا تھا۔مگر جنگل میں۔اس کا مقصد تھا ویرانے کے رہنے والے سانپ تلاش کرے۔کیونکہ اس کا کام یہی تھا۔ پھر گلیوں گلیوں گھوم کر اس نے تماشا لگانا ہوتا ہے۔لوگوں کے تجسس کو ابھارنا ہوتا ہے،کہ وہ ان خطرناک مگر خوبصورت سانپوں کو دیکھنے کیلئے امڈ آئیں،نئے نئے سانپوں کی تلاش اور ان کو بین بجاکر بے خود کردینا۔ ان کو اپنی گرفت میں لینا اس کی زندگی ہے،پھر اسے ڈر بھی تو کہاں لگتاتھا۔کیونکہ یہ تو اس کا روزانہ کا کام تھا۔وہ سانپوں کے پیچھے جنگلوں کی خاک چھانتا اونچی نیچی گھاٹیوں کے سفر کرتا کیونکہ سانپ پرسہولت جگہوں سے دور ہی رہتے ہیں، جہاں عام لوگوں کا آنا جانا ہو۔ہم ان سے ڈرتے ہیں اور وہ اہم سے ڈرتے ہیں اسلئے تو ویرانے کو اپنا ٹھکانہ بنائے رکھتے ہیں۔تاہم انہیں ڈھونڈنے والے وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں، اس لئے اس سپیرے کو خوبصورت سانپ ڈھونڈ نکالنے میں زیادہ دشواری نہ اٹھانا پڑتی ۔ کیونکہ جنگل اس قسم کی مخلوق سے ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔بلکہ اگرصند ل کا درخت مل جائے تو یہی سانپ ایک دو نہیں بہت سے اس درخت کی لکڑی کی خوشبو کو سونگھ کر مدہوشی کے عالم میں اس ہرے بھرے درخت کی شاخوں میں جھول رہے ہوتے ہیں۔ وہاں اس سپیرے کو مشکلات کا سامنا کم ہی کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ تھوک کے حساب سے ان سانپوں کو بین بجاکر مزید بے سدھ کر دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھاجسے وہ ویرانے میں جا کربجا لاتا۔
وہاں اس کو اس کی مرضی کا خوبصورت رنگوں والا سانپ کہیں نہ کہیں ہاتھ لگ ہی جاتا۔اور یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جس چیز کی تلاش کی جائے وہ ضرور مل جاتی ہے، بس تلاش اور جستجو شرط ہے۔ پھر یہاں تو جو سانپ اس کے ہتھے چڑھنے کیلئے تیار ہوتے وہ تو کالے اور بیکار رنگوں میں ہوتے۔ مگر اس کو تو خوشنما سانپوں کی تلاش تھی۔ جن کو وہ لے جاکر شہر میں کہیں فروخت بھی کردے تواس کے ہاتھ کچھ نہ کچھ رقم لگ جاتی۔ اس کا کام چل جاتا۔کیونکہ اس کا تو کاروبار یہی تھا۔ سانپ او رخوبصورت سانپ۔ دلکشی بھی ہو ہرچند ان میں زہر ہو۔ اس کا یہ کاروبار اس کو پسند بھی تو تھا۔ آبادی میں رہنے والے لوگ تو ان ویرانوں سے بہت دور ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ ان خطرناک زہر والے اجسام سے محفوظ ہوتے ہیں۔ وہ تو بڑے مزے سے شہری آبادی میں زندگی گزارتے ہیں۔ خوبصورت دیدہ زیب سانپوں کا شہری آبادی میں کیا کام ہے۔کلبلاتا رینگتا سانپ اگر کہیں دکھا ئی بھی دے گیا تو اس کو کم ہی مارا جاتاہے۔چلا ہی جائے گا۔ اپنا راستہ تلاش کرلے گا۔بھلا کوئی سانپ کہیں مستقل رک سکتا ہے۔ شہری آبادی میں کہیں درختوں کی بہتات ہوئی تو سانپوں میں ایک آد ھ کبھی نمودار ہوجاتا ہے۔بلکہ ہمارے ہاں تو بعض گھروں کی لکڑی اور ڈاگوں والی چھتوں میں کوئی سانپ لٹکتا ہوا چھپ چھپا کر رینگتا نظر آ جائے تو بعض اس کومارنے سے گریز کرتے ہیں۔سپیرے کی بات کر رہاتھا۔اس کا شوق بھی تو ہوتا ہے۔
جب رزق کمانے کا ذریعہ شوق بھی بن جائے یا پھر شوق کہیں رزق کے حصول کا ذریعہ بن جائے تو زندگی بہت حسین ہو جاتی ہے۔ اس وقت زندگی گذارنے کا حقیقی مزہ آتا ہے۔مگر یہ بھی سنا اور دیکھا ہے کہ بعض سپیروں کی موت اپنے ہی پالے ہوئے کسی بے باک سانپ کے ڈسنے ہو تی ہے۔کیونک اس کو یقین ہوتا ہے کہ یہ سانپ مجھے نہیں کاٹے گا۔ مگر افسوس کہ سانپ اسی کو کاٹ لیتا ہے جس نے اس کو دودھ پلایا ہوتا ہے۔ وہ کسی شاعر کا شعر ہے کہ ”تن پہ سجتے ہیں مگر روح کو ڈس جاتے ہیں۔خوشنما سانپ ہیں یہ اطلس و کمخواب کے رنگ“۔یہ اعتبار بھی کیا چیز ہے اور کتنی خراب چیز ہے۔اس لئے کہ بندہ کبھی کبھی اعتبار میں مارا جاتاہے۔دیکھا جائے تو زندگی میں بہت سے پیشے ایسے ہیں جن میں ہمہ وقت جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے،تاہم ان پیشوں کو اپنانے والے ان خطروں سے بے نیا زاپنے شوق کو پالے رکھتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سانپ ہے یا دیگر خطرناک جانور اسی وقت حملہ کرتے ہیں جب ان کو اپنی جان خطرے میں نظر آئے۔ اس لئے تو سپیرے ان سانپوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے کیونکہ وہ اپنے رویے سے ان خطرناک سانپوں کو یہ احساس دلا دنے میں کامیاب رہتے ہیں کہ سانپ کو ان سے کوئی خطرہ نہیں اور بدلے میں پھر سانپ کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے، اس طرح اپنی حفاظت کا یہ ایک افاقی اصول ے کہ اپنی حفاظت چاہئے تو دوسروں کیلئے خطرہ نہ بنو۔