ملک میں جاری سیاسی بحران بالاخر اختتام کو پہنچا۔ متحدہ اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی، جس کے بعد عمران خان اب وزیراعظم نہیں رہے۔گزشتہ روز سپیکر اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے بعد قائم مقام سپیکر ایاز صادق نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی کاروائی مکمل کی۔ جوہونا تھا وہ تو ہو چکا اب آ گے کی فکر ضروری ہے سب سے پہلے اس قسم کی آ ئینی اصلاحات کی ضرورت ہے کہ الیکشن میں کوئی بھی دھاندلی نہ کر سکے تاکہ ہارنے والے امید وار دھاندلی دھاندلی کی رٹ نہ لگا سکیں۔آج کل الیکٹرانک میڈیا کا زمانہ ہے گھر گھر میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور موبائل موجود ہیں سیاسی پارٹیوں نے عوام سے جو کچھ بھی کہنا ہے اس میڈیا کے ذریعے کہیں میڈیا پر وہ اس مقصد کیلئے ائر ٹایم خرید سکتے ہیں‘ جلسے جلوسوں پر ان کو خرچے کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان پر سیکورٹی کے انتظامات کرنے پر بھی حکومت کا بے پناہ خرچ ہوتا ہے۔ اس طرح الیکٹرانک مشین کے استعمال سے دھاندلی کے امکانات کو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے اس بارے سنجیدگی سے غور ضروری ہے۔ اصلاحات میں اس قسم کی نئی شق شامل کی جائے کہ خراب عمومی شہرت رکھنے والے فرد کو ٹکٹ ہی نہ مل سکے اگر اس ملک کے سیاستدان واقعی آ زادانہ اور منصفانہ الیکشن چاہتے ہیں تو ان کو فورا ًسے پیشتر الیکٹورل اصطلاحات کرنا ہوں گی اگرہم نے اس ملک میں پارلیمانی نظام حکومت کوہی چلانا ہے تو پھر اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرنے ہوں گے۔اگر بات ہو عمران خان کی حکومت کے حوالے سے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جو توقعات تھیں وہ ساری پوری نہ ہوسکیں تاہم خارجہ پالیسی میں عرصہ دراز کے بعد ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی۔
نئی حکومت کو بھی چاہئے کہ اگر عمران خان کی حکومت نے کچھ اچھے کام کئے ہیں تو ان کو جاری رکھے اور خارجہ پالیسی کو جس طرح غیر جانبداری کی طرف لے جایا گیا ہے اس پر اب قائم رہنا ہی وطن کے مفاد میں ہے پاکستان جس جگہ پر واقعہ ہے وہ بہت اہم ہے۔یہاں پر تین ایٹمی طاقتوں کی سرحدات ملتی ہیں، یعنی پاکستان چین اور بھارت، اس کے ساتھ ساتھ وسطیٰ ایشیائی ممالک تک رسائی کیلئے بھی پاکستان کی حیثیت ایک پل جیسی ہے۔امریکہ افغانستان سے تو گیا تاہم وہ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اب بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا کہ یہاں پر کسی بھی ملک کے ساتھ سٹریٹیجک پارٹنر شپ قائم رکھے۔اب ذرا تذکرہ ایک بہت اہم مسئلے کا جو قوم کے مستقبل یعنی بچوں سے متعلق ہے۔ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم خوراکی اور متوازن غذا کے فقدان کے باعث ایک سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں آئرن کی کمی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس خطرناک صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیز اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹک سوسائٹی کے ماہرین کے مطابق جسم میں آئرن اور دیگر مائیکرو نیوٹری اینٹس کی کمی کے باعث سندھ کے بیشتر دیہی علاقوں خصوصا خیر پور، نوشہرو فیروز، سکھر وغیرہ میں بچوں میں چھوٹے قد کا غیر معمولی رجحان دیکھنے میں آیا ہے، جو لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں زیادہ ہے۔2019 میں ہونے والے پاکستان قومی سلامتی نیوٹریشن سروے کے مطابق صوبائی سطح پر سب سے زیادہ لاغر بچے فاٹا میں ہیں، جن کا تناسب 48فیصد ہے۔
اس کے بعد بلوچستان 46 فیصد، گلگت بلتستان 46 فیصد، سندھ 45 فیصد، خیبر پختونخواہ 40 فیصد اور پنجاب 36 فیصد پر ہیں۔مجموعی طور پر پاکستان میں 50 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں جس میں آئرن کی کمی سر فہرست ہے۔ دیہی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری کے باعث والدین بچوں کو صحت مند خوراک دینے سے قاصر ہیں، جس میں تعلیم کی کمی کا بھی دخل ہے۔ زیادہ تر مائیں تعلیم یافتہ نہیں ہیں، جنہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ کس عمر تک بچوں کو کون سی غذا دینا ضروری ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق بچوں میں لاغر پن کا براہ راست تعلق ماں کی صحت سے ہے،اگر ماں کے جسم میں آئرن کی کمی ہو تو بچہ نحیف و لاغر ہو گا۔اب وقت آگیا ہے کہ جو بھی حکومت ہو وہ اس اہم مسئلے کی طرف بھرپور توجہ دے۔ بچوں میں غذائیت کی کمی کو دور کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر قدم اٹھائے جائیں اور اس کو قومی فریضہ سمجھتے ہوئے اس ہد ف کے حصول کو ہر قیمت پر ممکن بنایا جائے۔کیونکہ یہ ملک و قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔اس حوالے سے اب کسی تاخیر اور غفلت کی گنجائش نہیں رہی فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن کے ذریعے غذائی قلت کا شکار بچوں کی جان بچائی جا سکے۔