پشاور کہانی: مفاد عامہ اور صحت عامہ

ترقیاتی کاموں میں بھرپور پلاننگ اور موثر منصوبہ بندی کو نظر انداز کیا جائے تو ایسے میں ترقیاتی منصوبے فائدے اور سہولت کی بجائے نقصان اور زحمت کا باعث بننے لگتے ہیں۔ چغل پورہ سے صوبائی اسمبلی تا پشاور ہائی کورٹ‘ شاہراہ کے دونوں اطراف تعمیراتی کام اور خوبصورتی (بیوٹیفیکیشن) کا عمل بہت احسن اقدام ہے تاہم جو کیاریاں پودے اور سبزہ زار بنائے جاتے ہیں‘ چند دن بعد اُنہی کی توڑپھوڑ ہو رہی ہوتی ہے اور پھر سے کچھ اور بنا دیا جاتا ہے اس طرح ضلع پشاور میں یہاں وہاں بالخصوص گنجان آباد اندرون شہر کے رہائشی و تجارتی مراکز میں ’انسداد تجاوزت‘ کی کاروائیوں اور اِس بارے میں متعلقہ اداروں کے عزائم کا علم ذرائع ابلاغ میں شائع یا نشر ہونے والی تصاویر‘ خبروں اور ویڈیو رپورٹس سے ہوتا ہے چونکہ یہاں بھی برسرزمین حقائق تبدیل نہیں ہوتے اور یہ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے اس طرح پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور محکمہئ خوراک اشیائے خوردونوش جیسا کہ مصالحہ جات‘ خشک چائے کی پتی‘ دودھ وغیرہ میں ملاوٹ‘ جعلی و زائدالمیعاد و غیرقانونی درآمد شدہ ادویات کی تیاری و فروخت‘ اور بچوں کیلئے ارزاں قیمت‘ ناقص المعیار‘ مضر صحت‘ کیمیائی مادوں سے بنی اشیا (پاپڑ‘ ٹافیاں وغیرہ) تیار کرنے والوں کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں‘ لیکن یہ سب کچھ مسلسل کام کاج اور مسلسل تگ و دو ہے جس کا کوئی تو نتیجہ بھی نکلنا چاہئے؟ اس سارے عمل کا خلاصہ بزبان ِشاعر (منیر نیازی) یوں کیا جا سکتا ہے کہ ”حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ!“ رمضان المبارک کے ابتدائی 10 ایام کے دوران فروخت ہونے والی اشیائے خوردونوش کو دیکھا جائے تو اِن میں ہر قسم اور نوع کی ناقص اشیاء کی بھرمار دکھائی دیتی ہے۔ 
ایک زمانہ تھا جب پشاور کی روایتی اشیائے خوردونوش اپنے ذائقے اور صحت مند خصوصیات کی وجہ سے مشہور ہوا کرتی تھیں لیکن اب ذائقے کی جگہ رنگوں اور نمائشی حربوں نے لے لی ہے‘ جس پر ’خیبرپختونخوا فوڈ سیفٹی اتھارٹی‘ کی نظر ہے۔ اتھارٹی نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے کے دوران مختلف کاروائیوں میں ضلع پشاور کے کسی دور دراز مضافاتی دیہی علاقے سے نہیں بلکہ اندرون شہر (ٹاؤن ون) کی حدود سے مصالحہ جات میں ملاوٹ کرنے والے ایک کارخانے کا کھوج لگایا ہے جہاں بڑے پیمانے یعنی صنعتی یونٹ کے طور پر انتہائی مہارت سے مصالحہ جات میں ملاوٹ کی جاتی تھی۔ چھاپے کے دوران 1 ہزار کلو (ٹن) سے زائد چاول کے چھلکے برآمد کئے گئے جنہیں انسانی استعمال کیلئے مضر سرخ رنگ دے کر مرچ اور دیگر مصالحوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ اِسی طرح زائد المیعاد اور استعمال شدہ خوردنی تیل دوبارہ قابل استعمال بنانے والے بھی سامنے آئے۔ چاول کے علاوہ 300 کلوگرام سے زائد چنے کے چھلکے برآمد ہوئے جنہیں باریک پیسنے اور رنگ دینے کے بعد چائے کی پتی میں شامل کیا جاتا ہے۔ پشاور میں ’رنگ دار‘ چائے کی پتی کا استعمال اِس حد تک عام ہوچکا ہے کہ دکانداروں نے باقاعدہ بورڈ آویزاں کر رکھے ہیں۔
 جن پر رنگ دار چائے کی پتی کا ذکر ہوتا ہے اور پشاور کی یہ 2 سوغاتیں‘ رنگ دار خشک مصالحہ جات اور رنگ دار چائے کی پتی کا کاروبار اِس حد تک پھیلا ہوا ہے کہ یہ ’مضر صحت اجناس‘ پشاور سے خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں ارسال کی جاتی ہیں اور اِنہیں برانڈ کرنے کیلئے خصوصی کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ جملہ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ سطحی نہیں بلکہ یہ ایک ایسے تناسب و مہارت سے کی جاتی ہے کہ اندرون و بیرون پشاور صارفین کی بڑی تعداد اِن رنگ برنگے مصالحہ جات اور چائے کی مانگ کرتے ہیں۔ اِسی طرح قیمہ فروش اِنہی رنگ دار مصالحہ جات اور استعمال شدہ مضر تیل و گھی کو قیمے میں ملا کر فروخت کرتے ہیں۔ ساری نہیں بعض دکانوں پر قیمے میں ملاوٹ شدہ مصالحہ جات کا یہ تناسب بھی اس قدر مہارت سے برقرار رکھا جاتا ہے کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد یہی ”ریڈی ٹو کک (ready to cook)“ قیمہ خریدنا پسند کرتی ہے۔ موسم گرما کے دوران ضلع پشاور کی حدود میں آئس کریم اور برف بنانے کے کارخانے بھی جاگ اُٹھتے ہیں‘ جن کی پیداوار بڑھا دی جاتی ہے اور یہاں بھی کیمیائی مادوں اور مضر رنگوں کا استعمال عام ہوتا ہے۔ صحت عامہ اور مفاد عامہ کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو ملاوٹ پر منحصر صرف پیداواری ہی نہیں بلکہ کاروباری طریقوں کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ ملاوٹ کرنے اور ملاوٹ شدہ اشیا کی فروخت یکساں جرم ہیں لیکن اِس جرم کو جرم سمجھا ہی نہیں جاتا۔ پشاور کے نام سے ملاوٹ کے وسیع دھندوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائیوں کا آغاز ہونا چاہئے۔