بس یادیں رہ جاتی ہیں 

یکہ توت دروازے کے باہر نیچے کو بائیں موڑ کاٹو تو لکڑ منڈی شروع ہو جاتی ہے۔بھرا پُرا بازار ہے۔جہاں لکڑی کا کام ہو رہا ہے۔لکڑیوں کی خرید و فروخت جاری رہتی ہے۔پھر تھوڑا آگے جا کر نہر کنارے پرانے لکڑی کے بنے در دروازے برائے فروخت پڑے ہوتے ہیں سالوں سے یہ بازار اپنی پوری رعنائی سے آباد ہے۔یہاں قرب و جوار میں اور مقامات پر بھی آرا مشینوں کی آوازیں دل کو ایک قسم کا سکون مہیا کرتی ہیں۔ذہن کو واپس موڑ کر پچھلے زمانوں میں لے جاتی ہیں۔یہاں لکڑی کے کام کے دوران جو بورا گرتا ہے۔اس کی اپنی سی ایک خاص خوشبو ہوتی ہے۔جب اس بازار سے گزرتا ہوں تو آگے چلا جاتا ہوں۔ مگر دل دماغ پیچھے اسی ٹمبر مارکیٹ میں کھڑے رہ جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یکہ توت دروازے کے اندر جائیں تو پہلے زمانے میں چوک ناصر خان کی طرف جاتی ہوئی راہداری پر اسی قسم کی مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ اپنی پوری آن بان اور شان وشوکت او رسج دھج سے موجود تھی‘یہاں تقریباً سو سال پہلے بہت بڑی آگ لگی تھی۔ کسی نے سگریٹ پی کرآخری ٹوٹا یہاں گرا دیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ان سب کو معلوم ہے جن کے والدین یہاں کے رہائشی تھے۔
 جو اس عالمگیر آگ کے چشمِ دید گواہ تھے۔ بڑے سرمایہ دار مالی لحاظ سے سڑک پر آ رہے۔ سب کچھ جل کر خاک ہوگیا۔ جب وہ اس آگ کے بعد غربت کی چکی میں پسنے لگے تو پھر بھی انھیں اس کسمپرسی کی حالت میں سے نکلتے ہوئے چالیس سا ل اور لگ گئے جب آگ جیسے تیسے بجھ گئی تو واپس آنے والوں کو اپنے گھر کی تلاش کرنا بہت مشکل ہوا۔ سب کچھ ملبہ کا ڈھیر بن چکا تھا۔ درو یوار کی چوکاٹھوں کی لکڑیاں جل کر کوئلہ ہوئیں او رپھر گر گئیں۔ آج بھی یہاں تعمیر ہو اور تہہ خانے کیلئے مٹی نکالنا مقصود ہو تو بعض مقامات پر جلی لکڑیوں کے ٹکڑے و ہ کوئلے نکل آتے ہیں جن کو دیکھ ماضی کے زمانے کی ساری تصویر نگاہوں کے سامنے سے گھوم جاتی ہے۔آج کی جدید دنیا کا زمانہ تو نہ تھا۔ اس وقت تو کم کم فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تھیں۔ ان کی اتنی صلاحیت نہ تھی کہ وہ اس بڑی آگ کو بجھا سکتیں۔ وہ پشاور کی مشہور آگ تھی۔ چونکہ آگ بجھانے کا سازو سامان نہ تھا اس لئے آگ بجھانے میں کافی دن لگ گئے۔
مگر اس میں جو کچھ ہوا وہ مالی نقصان تھا۔ جو ہاتھ زکواۃ دینے والے تھے وہ دستِ طلب بن کر پھیل گئے۔ بعض گھرانے تو جوں غربت کے شکنجے میں آئے تو ابھی تک ان کی نسلیں وہ تھپیڑے سہہ رہی ہیں۔ یہ ہمارے والدین کے بچپن سے پہلے کی باتیں ہیں۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو اس لکڑی مارکیٹ کو اپنے جوبن پر دیکھا۔ تھرکان نوتعمیر مالک ِ مکان کے ساتھ آ کریہا ں وہاں ہر سُو منڈیو ں میں گھس کر نئے تعمیر ہونے واالے گھر کیلئے لکڑی خرید رہے ہوتے تھے۔ ہماری گلی کے باہر لکڑی کے بڑے بڑے گٹو اورسلیپر پڑے ہوتے تھے۔گلی کے باہر آرا مشین ہوتی۔ گھر سے نکل کر تفریح کے لئے اس آرا مشین کے باہر بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھے رہتے۔بڑی بڑی ہتھ ریڑھیوں پر جو لمبے اندا ز کی تھیں گٹو پڑے ہوتے ڈاگے ہوتے اور ان کو دو مزدور کھینچ رہے ہوتے۔پھر کبھی ان گاڑیوں میں بھینسے بھی جو تے جاتے۔ جن میں زور ہوتا کہ بھری ہوئی گاڑی کو جوکسی کا بس نہ تھا کہ ہاتھوں سے گھیسٹ سکے لے کر چل پڑتے۔ایک شاندار ماضی تھا۔جو گم ہوگیا۔لکڑ منڈی چوک ناصر خان ہمارا اپنا او رذاتی علاقہ ہے۔یہاں کے در ودیوار کے ساتھ ہمارا رومانس ہے۔اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کچھ انھیں کو ہے جو یہاں کے ہیں جن کے بزرگ بھی یہاں پیدا ہوئے اوریہیں انتقال کیا۔ یہ معلوم ہے کہ وہ زمانہ پھر سے لوٹ کر نہیں آنے والا۔ مگر یاد تو آتی ہے۔ موٹی موٹی دیواروں کو توڑ کر اور ان کی اونچائیوں کو پھلانگ کر دل دماغ کو معطر کرجاتی ہے۔