فرانس میں صدارتی انتخابات

فرانس میں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کیلئے اتوار کو ووٹ ڈالے گئے۔ یہ کالم شائع ہونے تک پہلے مرحلے میں ڈالے گئے ووٹوں کے نتائج آچکے ہوں گے جن سے اندازہ ہوسکے گا کہ اگلے پانچ سال کیلئے دنیا کی ساتویں بڑی اور یورپی یونین کی دوسری بڑی معیشت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اور جوہری طاقت رکھنے والے فرانس کا اگلا صدر کون بنے گا۔اس انتخاب کا نتیجہ فرانس اور یورپی یونین کیلئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ فرانس کے موجودہ دائیں بازو کے صدر ایمانوئل میکرون کے بجائے اگر کوئی کٹر سفید فام نسل پرست اور انتہاپسند امیدوار صدر منتخب ہوگیا تو یورپی یونین کے بانی رکن اور اس کی پالیسی کے بنیادی فیصلہ ساز فرانس کی خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی و صورتحال میں بڑی تبدیلی آجائے گی۔ نومنتخب صدر کو فرانس کے رائے دہندگان کے ذہنوں پر حاوی امور جیسے روس یوکرین جنگ، کورونا وائرس سے متاثرہ معیشت کی بحالی،مہنگائی کم کرنے،معدنی وسائل جیسے کوئلہ سے شفاف توانائی وسائل پر منتقلی، فرانس کے فلاحی نظام کے دوام اور مہاجرین بارے پالیسی جیسے امور و مسائل سے جلد از جلد نمٹنا ہوگا۔اگرچہ بائیں بازو کے امیدوار کی پوزیشن بھی تھوڑی بہتر ہوئی ہے مگر سوشل میڈیا، عام ذرائع ابلاغ اور تھک ٹینکس کے پروپیگنڈے اور بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور سفید فام نسل پرستی کی وجہ سے فرانس میں بنیادی طور پر مقابلہ دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کے امیدواروں کے مابین ہو رہا ہے۔ 
پہلے مرحلے کی انتخابی مہم میں سلامتی، امیگریشن، مہنگائی، مسلمان تارکین وطن کی حیثیت، توانائی، ٹیکس نظام، نظام صحت، یوکرین جنگ میں فرانس کے کردار اور ملکی معیشت کی بہتری کیلئے منصوبہ بندی اور پالیسی اہم ترین مباحث رہیں۔فرانس میں صدر کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست عوامی ووٹوں سے ہوتا ہے۔ مساوات کی خاطر انتخابات میں سب امیدواروں کو میڈیا پر یکساں موقع ملتا ہے اور ان کی انتخابی مہم ریاستی نگرانی، انتظام اور کچھ مالی مدد کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہے۔ نجی کمپنیاں انتخابی مہم کیلئے چندے نہیں دے سکتیں جبکہ ایک فرد صرف 4600 یورو تک چندہ دے سکتا ہے۔ ریاست امیدواروں کو ان کے اخراجات کا کچھ حصہ بعد میں لوٹا دیتی ہے۔ صدر بننے کیلئے انتخابات میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لینا ضروری ہیں۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں مقابلہ بارہ امیدواروں کے مابین ہے۔ امیدواروں میں موجودہ صدر ایمانوئل میکرون، دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کی رہنما مارین لی پین، بائیں بازو کے عوامیت پسند صدارتی امیدوار ژاں لک میلنشو، انتہائی دائیں بازو کے سفید فام نسل پرستی و نیو نازی نظریات کے پرچارک، روس نواز اور نیٹو، یورپی یونین اور مہاجرین مخالف ایرک زیمور، دائیں بازو کی ولیری پریکریس اور پیرس کی میئر اور سوشلسٹ پارٹی کی امیدوار آنے ہیڈالگو شامل ہیں۔
 اگر ان میں کسی کو پہلے مرحلے میں پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ نہ ملے تو پھر دوسرے مرحلے میں چوبیس اپریل کو پہلے مرحلے کے پہلے دو زیادہ ووٹ لینے والے امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوگا۔ آخری بار پہلے مرحلے میں صدارتی انتخاب کا فیصلہ 1965 میں ہوا تھا اور تب سے دوسرے مرحلے میں ہی صدر کا حتمی انتخاب ہوتا رہا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق موجودہ صدر ایمانوئل میکرون پچیس فیصد، دائیں بازو کی مارین لی پین بیس فیصد عوامی حمایت کے ساتھ باالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں مگر موجودہ صدر کو تھوڑی سی سبقت حاصل ہے جبکہ میلنشو کو پہلے مرحلے میں سولہ فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ تازہ ترین اندازوں کے مطابق عمر رسیدہ، تجربہ کار اور اچھے مقرر میلنشو نے سبز توانائی میں سرمایہ کاری کرنے،ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے، کم سے کم اجرت بڑھانے، امیروں پر ٹیکس لگاکر دولت کی ازسرنو تقسیم کرنے اور صدر کے اختیارات گھٹانے کا وعدہ کیا ہے اور وہ دوسرے مرحلے تک جانے کے مضبوط امیدوار بن گئے ہیں۔ اگر وہ دوسرے نمبر پر آتے اور دوسرے مرحلے کیلئے اہل بنتے ہیں تو یہ 2012 کے بعد صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں جانے والے پہلے بائیں بازو کے امیدوار ہوں گے۔ فرانس کے ٹرمپ کے نام سے مشہور ایرک زیمور کو دس فیصد ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ اگر دوسرے مرحلے تک نوبت جاتی ہے تو تیسری، چوتھی اور پانچویں پوزیشن پر آنے والے امیدواروں کی جانب سے اس مرحلے میں کسی ایک کی حمایت سے نتیجے پر بڑا اثر پڑے گا۔ ملک میں سیاست سے بڑھتی ہوئی مایوسی اور عدم دلچسپی کے باعث اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس بار رائے دہندگی کی شرح تاریخ میں سب سے کم ہوگی۔2017 میں ناتجربہ کار میکرون تبدیلی کے منشور پر منتخب کیے گئے تھے۔ انہوں نے قومی ریلوے کمپنی کے ساتھ ساتھ لیبر اور پنشن اصلاحات متعارف کروائیں اور مالداروں پر ٹیکس کم کیے مگر مزدوروں کے ہڑتالوں، پیلی جیکٹ والوں کے احتجاج اور کورونا وبا کے اثرات نے ان کے اصلاحاتی ایجنڈے میں رکاوٹ ڈال دی۔
 میکرون یوکرین جنگ کی وجہ سے انتخابی مہم کو کماحقہ توجہ نہیں دے سکے اور پندرہ دن پہلے تک انتخابی مہم کے بجائے روس اور یوکرین میں کشیدگی اور جنگ رکوانے پر توجہ مرکوز کیے رہے۔ انہوں نے تاخیر سے مہم شروع کرنے اور اس سے ممکنہ نقصان اٹھانے پر تاسف کا اظہار کیا جبکہ مارین لی پین کئی مہینوں سے انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔ میکرون کے مطابق لی پین فرانس سے سرمایہ کاروں کو دور بھگائے کا سبب بنے گی۔ لی پین نے اس دوران اپنی انتہاپسندانہ پہچان اور خود کو دوسرے دائیں بازو کے امیدواروں کے مقابلے میں نرم، ذمہ دار اور کم انتہاپسند ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔یاد رہے اس انتخاب کے فوری بعد فرانس کے رائے دہندگان بارہ اور انیس جون کو دو مرحلوں میں ملک کی قومی اسمبلی کیلئے ووٹ ڈالیں گے جس کے ارکان پانچ سال کیلئے منتخب کیے جاتے ہیں۔ صدارتی انتخاب کے بعد پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عمومآ رائے دہندگان نو منتخب صدر کی پارٹی کے امیدواروں کو ہی کامیاب کردیتے ہیں اور یوں فرانس کے صدر کو دوسرے ممالک کی طرح مخالف پارلیمان یا وسط مدتی انتخابات کا خطرہ نہیں ہوتا۔ یاد رہے فرانس کے وزیراعظم، جو سربراہ حکومت ہوتے ہیں، آئینی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر صدر، جو ان کی تقرری کرتے ہیں، ہی زیادہ تر پالیسی خدوخال طے کرتے ہیں۔ فرانس کے صدر کو وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور ان پر پابندیاں اور حدود عائد نہیں جو دوسرے مغربی رہنماؤں کے اختیارات پر ہوتے ہیں۔