نئی حکومت: نئے چیلنجز

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں انتقال ِاقتدار کا مرحلہ ہمیشہ ہی سے کٹھن ہوتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا، بہر حال تحریک انصاف کا قریب چار سالہ دورِ حکومت اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے لیکن تحریک انصاف ختم نہیں ہوئی اور شنید ہے کہ رواں ہفتے  تحریک کی مرکزی قیادت اپنی رابطہ عوام مہم کا آغاز پشاور سے کرے گی‘ جو ملک میں قبل ازوقت عام انتخابات کرانے سے متعلق ہے۔ تحریک انصاف کے بعد اب اور آئندہ جو بھی جماعت حکومت میں آئے گی اسے کئی ایک غیرمعمولی (بڑے) چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں سے کچھ چیلنجز تو ملک کے اندرونی حالات سے متعلق ہیں اور کچھ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سطح پر ہونے والی اہم تبدیلیوں کے بارے میں ہیں۔
 پاکستان کے اندر معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری ایسے چیلنجز ہیں جن سے نمٹنا کسی بھی حکمراں جماعت کیلئے آسان نہیں ہوگا۔ اس وقت ملک جس حالت میں ہے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں ’آئی ایم ایف‘ کے پاس ’مزید قرض‘ لینے کیلئے جانا ہی پڑے گا کیونکہ کوئی عالمی معاشی بحران کے باعث بھی ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے اتنی بڑی رقم دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ’آئی ایم ایف‘ کے پاس جانے کا واضح مطلب یہ ہے کہ مہنگائی کو قابو کرنے کیلئے فوری طور پر خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوسکیں گے کیونکہ ’آئی ایم ایف‘ شرائط کے بغیر قرضے کی اگلے قسط نہیں دے گا اور اس کی کڑی شرائط بھی ہر خاص و عام کو معلوم ہیں۔
 علاوہ ازیں افغانستان کے غیر مستحکم حالات کی وجہ سے پاکستان کسی بھی دوسرے ہمسائے سے زیادہ متاثر ہورہا ہے‘ اور روس و یوکرین کی جنگ بھی اس وقت ہر چھوٹے بڑے ملک کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے کیونکہ اس جنگ میں یوکرین کے ساتھ امریکہ اور یورپ کھڑے ہیں جو کسی بھی صورت دنیا میں اپنے اثر و رسوخ کو کم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ان حالات میں  کسی بھی جماعت کیلئے اقتدار سنبھال کر عوام کے سامنے خود کو غیرمقبول ہونے سے بچانا آسان کام نہیں ہوگا۔ موجودہ حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت کو درپیش مشکل یہ ہوگی کہ اِس کے پاس وقت کم اور چیلنجز زیادہ ہوں گے اور یہیں سے سیاسی قیادت و اہلیت کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ وقت کی کمی کی وجہ سے حکومت پر مسلسل دباؤ غلط فیصلوں کا باعث بن سکتا ہے یا دباؤ کی صورتحال میں ایسے فیصلے سرزد ہوسکتے ہیں جو ممکن ہے قلیل مدتی تناظر میں تو ٹھیک ہوں لیکن طویل مدتی تناظر میں وہ مثبت اثرات کے حامل نہ ہوں۔
 دیکھنا یہ ہے کہ حزبِ ِاختلاف کے حکومت کی تشکیل کے مراحل کیسے مکمل ہوتے ہیں۔ اِس دوران اختلافات پیدا نہ ہوں تو یہ پاکستان کیلئے بہتر ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی قیادت اقتدار سنبھالنے کے بعد آئندہ عام انتخابات تک‘ قریب سوا سال کی مدت میں ایسی کون سی حکمت عملیاں اختیار کرتی ہے‘ جن سے وہ ایک طرف عوام کو مطمئن کرنے کے قابل ہو اور دوسری جانب عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات سدھار سکے۔ پاکستان ایک مشکل اور نازک وقت سے گزر رہا ہے‘ جس میں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ملک کو معاشی استحکام سے ہمکنار کرنے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔