ہماری قوم کی بنیادی تربیت بائی سائیکل سے ہوئی ہے۔ہم خود بچپن سے کرایہ کی سائیکلیں چلا چلا کر بڑے ہوئے ہیں۔ہماری موجودہ نسل میں اکثر کی رگوں میں خون کی جا پر سائیکل کے دو پہیے دوڑ رہے ہیں۔ سڑک کراس کرنا ہوتوراہ میں گرین بیلٹ ہو یا ٹیلہ ہو ڈھلوان ہو سائیکل کو اٹھایا اور سڑک کے پار اتر گئے۔ون وے میں گھس گئے۔ سائیکل تو معاف ہے۔اس کو تو پولیس سارجنٹ بھی ہاتھ دے کر نہیں روکتے۔اس کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ہم نے آ ج کے ٹریفک کے ترقی یافتہ معاشرے میں سائیکل کو این آر او دے رکھاہے۔بلکہ میں کہوں آج تو سائیکل کو کوئی خاطر ہی میں نہیں لاتا۔ اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔اگر کوئی وقعت ہوتی تو سب سے پہلے اس کو ٹریفک پا پیادہ روک لیتا کہ ون وے میں چلے جاتے ہو۔جہاں راستہ نہ ملا سائیکل کو مونڈھے پر اٹھایا اور اپنا راستہ خود بنایااور مشکل موڑ سے آگے نکل گئے۔سائیکل ہے مزے کی چیز۔ ہمارے ایک دوست سائیکل پر گھومتے ہیں۔اکثر ان کو دیکھا تو دل بہت دُکھا۔ کافی عرصہ ان کو آتے جاتے دیکھتے اور دل ہی دل میں کڑھتے کہ کاش اس کو قدرت کی طرف سے موٹر سائیکل مل جاتا تو اس کی تکلیف دور ہو۔ایک بار کہا بھی کہ آپ سائیکل چلاتے ہو۔
کچھ کڑوا گھونٹ کر کے اپنے آپ کو یہاں وہا ں سے تنگ کر یں اور موٹر سائیکل خرید لیں۔اس پر اس نے شانِ بے نیازی دکھائی۔ جس پر میرا دل اس کے حق میں اور بھی خفا ہوا۔ کہنے لگا میرے پاس نیا موٹر سائیکل ہے۔میں نے گھر میں کھڑا کیا ہے۔جب بچوں کو چکر دلانا ہو تو خاتون ِ خانہ کے ساتھ موٹر سائیکل پر جاتے ہیں۔وگرنہ مجھے تو مزا سائیکل چلانے میں آتا ہے۔آپ کو کیا پتا بندہ سائیکل کا عادی ہوجائے تو پھر اس کو موٹر کار بھی لطف دینے سے قاصر رہتی ہے۔مجھے بہت حیرانی ہوئی۔اس کی عظمت کا احساس دل میں گھر کر نے لگا۔واہ اتنا عرصہ اس کو دیکھتا رہاہوں کہ سائیکل چلاتا ہے۔مگر اس نے اپنے راز کا پتا ہی نہ ہونے دیا۔ایک سفید ریش بابا ہے۔اس نے بچوں کی فیشنی سائیکل اٹھا رکھی ہے۔ سائیکل بھی چھوٹی ہے۔مگر وہ اس پر ہمیشہ سوار ملے گا۔ پھر تیزی سے موڑ کاٹے گا اور آگے یا پیچھے کی طرف چل دے گا۔ اس کی پھرتی دیکھنے لائق ہے۔لگتا ہے جیسے کوئی بچہ مستی میں ہے۔کیونکہ اس کا قد بھی تو چھوٹاہے۔ لیکن کبھی اس سائیکل والے موٹر سائیکل مالک نے بائیک نہ چلانے کی وجہ پٹرول کی گرانی کو قرار نہیں دیا۔ اسی وجہ سے تو میرے دل میں اس کی عظمت کا احساس موجیں مارنے لگا۔
کہتے ہیں ملک چین میں صدر اور وزیر وزراء اسی بائی سائیکل پر اپنے دفتر کو جاتے ہیں۔ مگر چوروں کیلئے تو یہ اور بھی پرلطف شئے ہے۔ پھر سائیکل کون سی سستی چیز ہے۔ہم چھوٹے تھے نئی سائیکل پان سو میں مل جاتی تھی۔ پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے تین ہزار تک پہنچ گئی۔مگر اب تو پانچ گنا مہنگی ہے۔لیکن خریدنے والے چلی ہوئی سائیکل خریدتے ہیں اورمزے اڑاتے ہیں۔ ہم تو ان کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ کمال کی چیز ہے۔پھر ان دنوں تو بہت کمال کی ہے۔کیونکہ سائیکل چلانے والا پٹرو ل کیلئے پریشان نہیں ہوگا۔مفت کی چیز ہے۔اکیلا بندہ ہو تو اس کے کام کی شئے ہے۔مگر کسی دوسرے کو بٹھانا ہو تو پھر یہ سواری بھی بھاری پڑ جاتی ہے۔کسی کو اگر سائیکل سے اچھی سواری ملتی ہے تو اچھی بات ہے تاہم اسے سائیکل سمجھ کر چلانے کی عادت کو ترک کرنا ہوگا۔کچھ لوگ سڑک کے پورے نا پ جیسی گاڑی کوسائیکل ہی سمجھ کر چلاتے ہیں۔پھر سائیکل والے موٹر سائیکل پر آئے تو اس سے زیادہ کام خراب ہوا۔کیونکہ وہ موٹر سائیکل کو سائیکل سمجھ کر چلاتے ہیں۔
ویسے موٹر سائیکل تنگ راستوں کا بادشاہ ہے۔ اس کو کسی گاڑی نے اب تک زیر نہیں کیا۔ ہاں کھلی سڑک ہو تو یہ ایسے ہے جیسے اونٹ پہاڑ کے نیچے آجائے اس وقت اس کو اپنی حقیقت کااحساس ہوتا ہے۔اس کو ابھی تک کوئی گاڑی والا زیر نہیں کر سکا۔سڑک بلا ک ہونے پر گاڑیوں والے چار پایوں کے جھولتے ہوئے تخت پر بیٹھے انتظار کرتے رہ جائیں گے اور موٹر سائیکل رش میں اپنا راستہ بناتا ہوا کہیں سے کہیں نکل جائے گا۔سائیکل چلا کر سیکھنے والی یہ قوم درست ہونے والی نہیں۔کیونکہ یہ ٹرک اور بائیس ویلر ٹرالر کو بھی سائیکل سمجھ کر دوڑاتے ہیں۔کوئی نیچے آگیا تو پروا نہیں۔بس آگے دیکھو اور راہ نکالو۔کسی کو دھکا دے دیا تو جانے دودیکھا جائے گا۔