ہاتھیوں کی لڑائی

لگتا ہے امریکہ نے رو س کے گرد گھیراتنگ کرنے کا عمل تیز کر دیا ہے اور اسے ہر قیمت پر انجام کو پہنچانا چاہتا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن کی یہ دھمکی بڑی معنی خیز ہے کہ روس سے مزید تیل درآمد کرنا بھارت کے مفاد میں نہیں ہوگا، امریکہ کی پالیسی بن گئی ہے کہ اگر وہ اپنے کسی حریف  ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتا ہے تو  وہ اسے معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج روس امریکہ کا ٹارگٹ بن چکا  ہے  اور اس کی کوشش  ہے کہ روس سے دنیا کا کوئی ملک بھی کسی قسم کی تجارت نہ کر ے‘ امریکی صدر نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ورچوئل ملاقات کی ہے اس  میں ان سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ امریکہ بھارت کو متبادل تیل فراہم کرنے میں مدد دے گا۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ بالاخر امریکہ کو بھی بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احساس ہونے لگاہے‘امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے بیان میں کہا کہ بھارت میں حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات تشویشناک ہیں۔ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہورہا ہے امریکی وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔انسانی حقوق کی پامالی میں سرکاری افسر‘ پولیس اہلکاراورجیل حکام ملوث ہیں انہوں نے کہا کہ بھارتی حکام سے ملاقاتوں میں انسانی حقوق کی اہمیت اوراس کی بلاتفریق فراہمی سے متعلق اپنے موقف سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔اگر واقعد امریکہ کو تشویش ہے تو یہ مثبت پیش رفت ہے تاہم ماضی گواہ ہے کہ امریکہ بظاہر انسانی حقوق کی بات تو کرتا ہے تاہم اندرون خانہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی ملک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو نظر انداز کرتا ہے اور بھارت بھی ان ممالک میں شامل ہے جسے امریکہ نے ایک طرح سے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔دوسری طرف پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے یہ تو کہہ دیا  ہے کہ پاکستانی قیادت سے مضبوط تعلقات رہیں گے  پر سیاسی مبصرین  کے مطابق امریکہ  وطن عزیز میں نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد بعد اس کی خارجہ پالیسی کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا  ہے امریکہ کی یہ کوشش ہوگی کہ پاکستان  چین  کے  ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو کم کرنے کی کوشش کرے وہ پاکستان اور چین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی کوشش کرے گا اس مقصد کیلئے وہ میڈیا کا بھر پور استعمال کرے گا اور مغربی میڈیا یہ کام عرصے سے کر رہا ہے، تاہم وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں ہی چین کے ساتھ قریبی تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی کوئی طاقت چین اور پاکستان کی دوستی میں رخنہ نہیں ڈال سکتی اور ماضی گواہ ہے کہ شہباز شریف کے چین کے ساتھ تعلقات کسی اور کے مقابلے میں زیادہ قریبی ہو سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان روس  کے ساتھ  اپنے تعلقات کو مزید کشادہ کرے  اور روس کے ساتھ استوار شدہ تعلقات کے تسلسل کو جاری رکھے تو یہ بہت بہتر قدم ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت نئے منتخب وزیر اعظم شہباز شریف کو کئی چیلنجز درپیش ہیں جن میں کچھ تو عالمی سطح کے ہیں تو کچھ ملکی سطح کے۔داخلی چیلنجز میں سب سے اہم معاشی مشکلات ہیں۔خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے تجارت کے فروغ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے ان 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دباؤ ہے۔بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے گزشتہ ایک ہفتے میں سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 2.9ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے اور 25مارچ 2022کو سٹیٹ بینک کے ذخائر 14.9 ارب ڈالر سے گرکر 12ارب ڈالر کی نچلی سطح تک پہنچ گئے جب کہ اس دوران کمرشل بینکوں کے ڈپازٹس 6.5ارب ڈالر رہے، اس طرح پاکستان کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 5.19فیصد کمی کے ساتھ 18.5رب ڈالر رہ گئے جو فروری 2022میں 22.6ارب ڈالر تھے۔قرضوں کی حالیہ ادائیگیوں میں 2.5ارب ڈالر چین کا قرضہ شامل ہے‘ چین پہلے بھی 2 ارب ڈالر کا قرضہ رول بیک کرچکا ہے۔اس طرح چین کے مجموعی 4.5ارب ڈالر کے قرضے مزید ایک سال کیلئے رول بیک ہوجائیں گے۔ یاد رہے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاتے وقت چین نے پاکستان کو 4 ارب ڈالر کا سیف ڈپازٹ31دسمبر 2021 تک کیلئے دیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے نان پیرس کلب ممالک سے 16 ارب ڈالر کے قرضے لیے ہیں جن میں چین سے گزشتہ 3سال میں لیے گئے 14.8ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں جب کہ پاکستان نے مختلف انٹرنیشنل کنسورشیمز اور بینکوں سے 10.8ارب ڈالر کے قرضے بھی لیے جس میں چین کے 2.5 ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں جس سے پاکستان کے مجموعی قرضے 127ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔