طویل جنگ

روس اور یوکرین  کے درمیان جاری تنازعہ جنگ کی صورت اختیار کرتے ہوئے ’خلاف توقع‘ طول پکڑ گیا ہے اور توقع یہی تھی کہ روس جیسی بڑی طاقت کے سامنے یوکرین جیسی محدود عسکری و دفاعی صلاحیت رکھنے والا ملک زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں ڈھیر ہو جائے گا لیکن روس کی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ روسی فوج نے یوکرین کے دارالحکومت کیف کی جانب پیشقدمی روک دی ہے اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر دارالحکومت کے شمال مغربی مضافاتی علاقے بوچا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جو ایک چھوٹا سا پرسکون قصبہ تھا لیکن جنگ کی تباہ کاری رفتہ رفتہ اِسے ملبے اور راکھ میں بدل رہی ہے۔ امریکہ اب دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی مدد کرنے پر غور کر رہا ہے تاکہ روس کو مبینہ جنگی جرائم کیلئے جوابدہ بنایا جا سکے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس حد تک مدد فراہم کر سکتا ہے کیونکہ روس کے خلاف کم سے کم امریکہ کی جانب سے جنگی جرائم کا الزام بنتا نہیں ہے اور اگر معاملہ واقعی عالمی فوجداری عدالت میں پہنچا تو امریکہ کو خود بھی کئی سوالات کے جوابات دینے پڑ سکتے ہیں‘ جو وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ کم سے کم کسی عدالت میں زیربحث آئیں۔ روس کو فوری فتح کی توقع تھی لیکن کئی ماہ سے جاری جنگ نے ثابت کیا ہے کہ یہ مستقبل قریب میں برسوں تک جاری رہے گی

اور زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اِس جنگ کے پھیلنے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ اگر جنگ کی ایک بھی چنگاری یورپی ممالک پر گری جو اِس بہانے امریکہ اور یورپ پہلے ہی سخت جواب دینے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ یوکرین کے دفاع کی ہرممکن یقین دہانیوں کے باوجود نیٹو تنظیم نے روس کے خلاف کسی بھی شدید عملی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا روس کے خلاف اب تک کی سب سے بڑی عالمی کاروائی ’اقوام متحدہ‘ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے سامنے آئی ہے جس نے روس کی رکنیت انسانی حقوق کونسل (ایچ آر سی) سے معطل کی ہے۔ روس یوکرائن جنگ کے طول پکڑنے سے پیٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتیں اور عالمی تجارت دونوں متاثر ہو رہے ہیں‘ جس سے پاکستان جیسے کمزور معیشت رکھنے والے ممالک کی تشویش اپنی جگہ اہم ہے۔ صاف ظاہر ہو رہا ہے روس نے یوکرین کی جانب فوجی پیش قدمی سے قبل یوکرینی شہریوں اور فوجیوں کی مزاحمت کے بارے میں غلط فہمی اور اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے حساب لگایا تھا۔

گزشتہ کئی ہفتوں سے روسی فوج ایک کے بعد ایک زخم برداشت کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس نے دارالحکومت کیف کو فتح کرنے کا ارادہ فی الحال ملتوی کر دیا ہے اور اب اِس کی توجہ مشرقی محاذ پر مرکوز ہے۔روس اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل سے بے دخل کرنے کی قرارداد کی رکن ممالک کی اکثریت نے حمایت کی جس کے نتیجے میں روس کو کونسل سے بے دخل کردیا گیا۔ جس کے بعد جوابی دلیل یہ سامنے آئی ہے افغانستان اور عراق میں جن مغربی ممالک نے حملے کئے آخر اُن پر اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل کیوں خاموش رہی؟ روس کے معاملے میں اقوام متحدہ اور مغربی ممالک  کا دوغلا پن عیاں ہے کیونکہ اگر روس نے یوکرین پر فوج کشی کر کے غلطی کی تھی تو یہی غلطی امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک بار بار دہرا چکے ہیں۔ درحقیقت کسی بھی ملک پر جنگ مسلط کرنے سے متعلق کوئی بھی جواز اور منطق قابل قبول نہیں ہو سکتی اور ایسے تمام حملے قابل مذمت ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کرہ ارض کے درجہئ حرارت میں تبدیلی سے شدید متاثر ہے اور کئی ممالک خشک سالی کے باعث بھوک و افلاس سے دوچار ہیں تو اِس نازک صورتحال میں جبکہ انسانی وجود اور بقا خطرے سے دوچار ہو لیکن اگر انسانی وسائل جنگ کی نذر ہو رہے ہیں تو یہ کسی بھی طور نہ تو دانشمندی ہے اور نہ ہی قابل معافی جرم ہے۔ مشرقی یوکرین کے ساتھ الحاق یا اسے آزاد ملک قرار دینے کی روسی خواہش تصوراتی ہے اور یہ باقی دنیا خاص طور پر اس کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ روس کے تعلقات کے مستقبل پر انمٹ نشانات چھوڑے گی۔