چھوٹی چھوٹی باتیں 

رشتے بہت مقدس ہوتے ہیں۔ رشتے بہت پیارے ہوتے ہیں۔ یہ تو میٹھے پانی کے چشمے ہوتے ہیں۔ مگر ان کی مٹھاس کو نوجوان نسل نہیں سمجھ پاتی۔ جب یہ رشتے جدا ہوجاتے ہیں تب ان کی قدر آتی ہے۔ماموں چاچاخالو خالائیں بہنیں پوپھیاں ان کو ہاتھ کے چھالوں کی مانند سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے۔ آمنے سامنے کی تلواریں اگر اپنے خول سے باہر نکلی ہوئی ہیں تو ان کے درمیان ٹکرانے کی آواز اور سروں پر چمکارے سب کو دکھائی دینے لگتے ہیں۔ مگر اچھا یہ ہوتا ہے کہ گھر کی بات گھر ہیں میں رہ جائے تو اچھا ہے۔اگر گھر کا جھگڑا گلی میں نکل گیاتو بس معاملہ دونوں فریقین کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔پھر دونوں میں سے ہر ایک کو اپنی عزت پیاری ہو جاتی ہے۔ایک انا اور دوسرے کو اپنی معاشرتی ساکھ برقرار رکھنا ہوتی ہے۔دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر اس موقع پر دونوں میں ایک حریف صبر کا دامن پکڑ لے اور منہ آئی بات دانتو ں کے نیچے داب لے تو جھگڑا آگے بڑھ نہیں پاتا۔ مگر ہم کہاں سمجھتے ہیں۔۔کچھ ادھورا ادھورا سا لگتا ہے۔کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔کسی تشنگی کا احساس ہو تا ہے۔وہ اس لئے کہ پشاور کے پشوریوں کی شادیا ں ہوں اور لڑائی جھگڑے نہ ہوں۔ایسا کم کم دیکھنے میں آیاہے۔اکثر اوقات ایک جگہ رکھے برتن نہ چاہتے بھولے سے ٹھوکر لگنے پر آپس میں ٹکراجاتے ہیں۔ جس سے مختلف آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔

جو ماحول کو ناپسندیدہ بنا دیتی ہیں۔کبھی کس بات پر کھٹ پٹ او رکبھی کس معمولی سی بات پر دمادم مست قلندر ہونے لگتا ہے۔شادیاں ہو ں یا دیگر تقریبات یاکوئی اکٹھ ہو۔لڑا ئی جھگڑے کے بغیر ہم لوگ نہیں رہ سکتے۔خوشی کا ہنگامہ ہو یا کوئی غم کی فضا ہو۔شادیوں میں لڑا ئی کی آگ کو بھڑکانے اور اس پر مٹی کا تیل ڈالنے میں اکثر اوقات چھوٹے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر چھوٹا صحیح بھی کہہ رہا ہو تب بھی ما ں یا باپ کو چاہئے کہ اس کو ٹوکے منع کرے کہ تمہارا اس جھگڑے میں کیا کام۔بڑوں کی باتیں ہیں بڑے جانیں۔ مگر چھوٹوں کا خون گرم ہوتا ہے۔ وہ برے بھلے کی تمیز سے بے نیاز ہوتے ہیں۔اگر دورانِ شادی ماموں نے فالتو گوشت کاپیالہ مانگ لیا تو بھانجے نے مذاق کر دیاماموں بس ہے کتنے پیالے اور لا دوں۔چھوٹے کی بات کو اگنور کردینے میں کیاحرج ہے۔کیونکہ وہاں اور لوگ بھی موجودہوتے ہیں۔ان کے سامنے اگر ماموں کی سبکی ہوئی تو ماموں جان اس کو عزت کے منافی نہ جانیں۔ بچے ہیں بچے تو غلطیاں کرتے ہیں۔ دوسری طرف بچوں کو چاہئے کہ اپنی حدود میں رہیں۔کیونکہ مذاق کی ایک حد ہوتی ہے۔پھر موقع محل دیکھنا پڑتا ہے۔محفل نہ ہو تنہائی ہو تو چلو اس قسم کامذاق افورڈ ہو سکتاہے۔مگر بڑوں کو بڑا جان کر ایک آدمی ان کو سبک کرے تو اس قسم کے بچپنے کو لگام ڈال کر رکھنا چاہئے۔ پھر ایسے میں چھوٹوں کی لڑائی میں بڑے بھی کود جاتے ہیں۔وہ بجائے اس کے کہ اپنے بچوں کو برا بھلاکہیں۔ جھاڑ جھنکار سے کام لے کر ان کو منع کریں کہ میں موجودہوں۔ تمھاری کیاجرأت کہ تم لڑا ئی میں حصہ لے رہے ہو۔

یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ہاں اکثر خاندانوں میں جدائیاں پڑ جاتی ہیں۔  ایک کے سر پر دوسرا اور دوسرے کی حمایت میں تیسرا بولنے لگتا ہے۔مجال ہے کہ ان میں سے کوئی بھی چپ کرتا ہو۔خاموش رہ جانا بھی امن کو بحال کرنے کی بہت بڑی کوشش ہوتی ہے۔بعض اوقات محفل کے وقار اور عزت کو قائم رکھنے کے لئے اپنے مؤقف تک کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اگر بولنا ہے اور بولنے کا مقابلہ ہے تو پھر نہ کوئی جیت سکے گا اور نہ ہی کوئی ہار سکے گا۔  وہ کہتا ہے کہ میں نے چپ سادھ لی تو اگلا سمجھے گا میں ان سے ڈرتا ہوں۔ ویسے جھوٹ موٹ سہی جو اس موقع پرڈر جاتے ہیں او رہونٹوں پر چپ کی مہر لگا لیتے ہیں۔وہ سب سے اچھے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ جھگڑے کو بڑھانے میں ملوث نہیں ہوتے۔اس موقع پر اگر صلح صفائی ہو نے لگتی ہے اور کوئی بڑا بیچ میں کود کر دونوں کو پیچھے دھکیلتا ہے تو بہت اچھا کام ہے۔مگر اچانک کوئی چھوٹا اس موقع پر رخنہ اندازی کر کے بد تمیزی کے ساتھ بڑوں کی داڑھی پکڑ لے تو بہت برا ہے۔چھوٹا توچھوٹا ہوتا ہے اور بڑے کو خدا نے بڑا بنایا ہو تاہے۔ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔بڑوں کا تجربہ کہتا ہے کہ لڑائی جھگڑا ہونہ پائے اور اگرہوا تو جلدی ختم ہوجائے۔فراز کا شعرہے ”یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں۔ جو گیا وہ پھر نہ آیا میری بات مان جاؤ“۔ کیونکہ بحث و تکرار خواہ جس گھر میں ہو یا کسی بھی موضوع پر ہو درست نہیں۔بڑوں نے ان لڑائیوں کے بہت خوفناک انجام دیکھ رکھے ہوتے ہیں۔ان کو معلوم ہوتا ہے کہ جو جھگڑا شروع ہوا ہے۔ اس کا آگے بڑھنا درست نہیں۔سو وہ کوشاں ہوتے ہیں کہ جتنا جلد یہ معاملہ ختم ہو جائے اچھا ہے۔