امراض کا علاج ممکن بنانے کے عمل میں ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات کا استعمال باقاعدگی سے کرنا پڑتا ہے اور ایسی ادویات کو ”جان بچانے والی ادویات“ کہا جاتا ہے جیسا کہ سرطان (کینسر)‘ مرگی (ایپی لیپسی)‘ ذیابیطس (شوگر)‘ بلڈپریشر اور دیگر نفسیاتی و ذہنی امراض شامل ہیں اور اِن میں سرطان ایسا مرض ہے جس کے مریض کو اگر تجویز کردہ ادویات نہ ملیں تو جہاں اُس کی زندگی کا اختتام یقینی ہو جاتا ہے بلکہ اُس کے مرض کی شدت کے باعث درد و تکلیف کی ہر گھڑی کاٹنا مشکل ہو جاتی ہے اور شاید ہی کسی بھی دائمی و لاعلاج مرض میں مبتلا افراد کیلئے اِس سے زیادہ کوئی بھی ”بُری اور بڑی خبر“ ہو کہ اُنہیں درکار ادویات ناپید ہو گئی ہیں! پاکستان میں جان بچانے والی ادویات کی یوں عدم دستیابی ایک معمول بن چکی ہے اور جب بھی کسی دوأ کی قلت ہوتی ہے تو اِس کا پہلا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اُس کی قیمت میں اضافہ ہونے والا ہے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ بہت سی جان بچانے والی ادویات ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا کوئی متبادل نہیں ہوتا اور اُنہیں صرف ایک ہی دوا ساز ادارہ بناتا اور فروخت کرتا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ کینسر کے ہزاروں مریض اِس وقت ایک تکلیف دہ (اذیت بھرے دور) سے گزر رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں علاج معالجے اور صحت عامہ کے مراکز میں درد سے نجات کیلئے استعمال ہونے والی ایک دوا ’اوپیوڈ‘ ناپید ہے۔ اس طرح کی دواؤں میں فینٹانل اور مارفین نامی اجزأ شامل ہوتے ہیں اور یہ کسی مرض کی ابتدائی و انتہائی شدت کی علامات میں دی جاتی ہیں۔ اِس صورتحال سے پریشان معالجین (آنکولوجسٹ) بھی ہیں کیونکہ ملک بھر میں کینسر کی علاج گاہوں میں بھی مذکورہ دوا دستیاب نہیں ہے جہاں اِس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ مثالی طور پر اور انسانی ہمدردی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی جان بچانے والی دوائیں مناسب مقدار میں دستیاب رہنی چاہئیں اور کسی بھی ہسپتال کو ایسی ادویات کی کمی کا سامنا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ایسی صورت میں مریضوں کو تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے۔ سرکاری ہسپتال میں مریضوں سے بازار سے درد کش ادویات خریدنے کا کہا جاتا ہے جہاں دوا دستیاب نہیں اور یہ پریشان کن صورتحال درحقیقت شعبہئ صحت سے متعلق فیصلہ سازوں کی عدم دلچسپی پر مبنی ناقص کارکردگی و ناکامی ہے۔ ’اوپیوڈز‘ مارکیٹ میں باآسانی سے دستیاب نہیں جس سے بالخصوص نچلے سماجی و اقتصادی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان میں عام ادویہ فروش (فارمیسیاں) ایسی ادویات کا ذخیرہ نہیں رکھتیں اور بڑی فارمیسیوں کے پاس بھی مذکورہ درد کش ادویات کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے۔ صنعتی پیمانے پر ایسی ادویات کی تیاری کیلئے خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے اور ایسی درآمدات آسان نہیں ہوتیں‘ ایک ماہر معالج نے اِس مسئلے کا حل تجویز کیا ہے کہ پاکستان میں انجکشن کے ذریعے دردکش ادویات کا استعمال ہونا چاہئے اور ’اوپیوڈ‘ کے متبادل تھراپی شروع کرنے کی ضرورت ہے لیکن اِس تجویز پر عمل کو بھی غیر ضروری رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ’اوپیوڈ‘ پر مبنی ادویات کینسر کے علاج کیلئے بنیادی ضرورت ہیں اور اِن کی مناسب و بلاتعطل ہموار فراہمی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت پاکستان میں علاج معالجہ اِس انداز سے مرتب و فعال ہے کہ یہاں معالجین (ڈاکٹرز) مریضوں کے مصائب کم کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ مریضوں کی بنیادی ضرورت یعنی ادویات ہی دستیاب نہیں ہوتیں اور آئے روز کسی نہ کسی دوا کی کمی ہو جاتی ہے۔ ادویات کی قلت اور دستیابی کے بارے میں اگر زیادہ نہیں اور صرف ایک سال ہی کے اعدادوشمار جمع کئے جائیں تو اُن سبھی ادویات کے بارے معلوم ہو جائے گا جن کی وقتاً فوقتاً قلت ہوتی رہتی ہے توجہ طلب ہے کہ ادویات کی قلت کے باعث کینسر و دیگر دائمی امراض کے مریضوں کے اہل خانہ یکساں کرب و تکلیف سے گزر رہے ہوتے ہیں اور خصوصا ًاِن کے مصائب کا خاتمہ بھی ہونا چاہئے۔ انہیں فارمیسی سے فارمیسی تک درد کش ادویات تلاش میں مارے مارے پھرنے کی نہ ہو۔ اب جبکہ نئی حکومت قائم ہو چکی ہے اور جلد ہی ایک نیا وزیر صحت بھی عہدہ سنبھال لے گا تو کیا شعبہئ صحت کے قومی فیصلہ سازوں سے اِس بات کی درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ ادویات کی کمی‘ قلت‘ عدم دستیابی‘ گراں فروشی اور زیادہ منافع کیلئے ذخیرہ اندوزی جیسے محرکات‘ معاملات اور مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے؟