لمحہ فکریہ

ملک میں نئی حکومت بن گئی ہے اور اس کے ساتھ اسے کئی طرح کے چیلنجز بھی درپیش ہیں، جن میں معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ امن وا مان کے حوالے سے بھی موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی کیونکہ سابقہ فاٹا یعنی ضم شدہ اضلاع میں اب بھی کبھی کبھار دہشت گرد اپنی کاروائیوں کے ذریعے امن میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس جملہ معترضہ کے بعد اب تذکرہ کرتے ہیں عالمی حالات کو جہاں ایک طرف اگر دنیا کے ممالک کی توجہ یوکرین اور روس کے تنازعے پر ہے تو دوسری طرف صومالیہ میں خشک سالی سے قحط کی صورت حال کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ عالمی برداری آپس میں لڑنے کی بجائے قدرتی آفات سے نبرد آزما ممالک کی مدد کریں مگر بد قسمتی سے عالمی طاقتوں کا ایجنڈا غریب اور پسماندہ ممالک کی مدد کرنے کی بجائے اپنے تسلط میں اضافہ کرنا ہے۔اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مشرقی افریقی ملک صومالیہ میں موجودہ خشک سالی اس دہائی کی بدترین خشک سالی ہے۔ لاکھوں بچے بھوک کی وجہ سے لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔صومالیہ یوں تک اکثر خشک سالی کا شکار رہتا ہے تاہم اس وقت یہ رواں دہائی کی بدترین خشک سالی سے گزر رہا ہے۔اس کے پڑوسی ممالک ایتھوپیا اور کینیا بھی متاثر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں ورلڈ فوڈ پروگرام، فوڈ اینڈ ایگری کلچر ایجنسی(ایف اے او) انسانی امدادی سرگرمیوں میں شامل ایجنسی او سی ایچ اے اور یونیسف کے عہدیداروں نے گزشتہ روز ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے دستیاب امداد ختم ہوتی جارہی ہیں اور بہت سے متاثرہ صومالیوں میں اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے صومالیہ کے نمائندے الخضر دالوم کے مطابق حقیقت میں صورت حال ایسی ہوگئی ہے کہ ہم کسی بھوکے سے کھانا لے کر بھوک  سے موت  کی دہلیز پر پہنچ جانے والے لوگوں کوکھلانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔لاکھو ں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اس سال اپریل سے جون کے دوران مشرقی افریقہ میں بارش نہیں ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اناج کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نیز یوکرین میں تصادم کی وجہ سے اناج کی سپلائی متاثر ہوجانے کے سبب اناج کی قلت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صومالیہ کے چھ خطوں کو قحط زدہ علاقوں کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔انٹیگریٹیڈ فوڈ سکیورٹی فیس کلاسیفیکیشن نامی ادارے کی جانب سے پیش کردہ ایک نئی رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا تقریبا 40 فیصد یعنی لگ بھگ 60لاکھ افراد خوراک کی انتہائی شدید قلت سے دوچار ہیں۔
امدادی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ قحط کی وجہ سے بچے اس کا سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ اس سال ہی تقریبا 14 لاکھ بچوں کو انتہائی غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ ان میں سے ایک چوتھائی کی بھوک کی وجہ سے ہلاکت ہوسکتی ہے۔اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق صومالیہ میں قحط کے بحران پر قابو پانے کیلئے ضروری 1.5 ارب ڈالر کی رقم کا اب تک صرف 4.4فیصد ہی حاصل ہوسکا ہے۔صومالیہ میں 2011 میں خشک سالی کے نتیجے میں قحط اور تصادم کی وجہ سے ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے پیداشدہ صورت حال نیز یوکرین کی جنگ نے بھی دنیا بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کردیا ہے جس سے غریب اور درآمد پر منحصر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے جرمنی آفس کے ڈائریکٹر مارٹن فریک  کے مطابق  سب صحارا اور شمالی افریقی ممالک نیز مشرقی وسطی کے ممالک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔