پروفائل پکچر

انہوں نے مجھے سات سمندر پار سے میسنجر پر پیغام دیاکہ آپ سے ایک ارجنٹ درخواست ہے۔وہ یہ کہ آپ اپنی پروفائل پکچر کی جگہ فیس بک اور اپنے وٹس ایپ سٹیٹس پر ہمارے لیڈر کی تصویر لگائیں۔اول تو میں دو ایک دن خاموش رہا۔ اس چُپ کا مقصد تھا کہ بلا ٹل جائے۔ تاکہ میں اس مفت کے فساد میں گھسیٹا نہ جاؤں۔ مگر جب  انھوں چپ کی چادر تان لی۔اس پر مجھے گمان گذرا کہ وہ کہیں ناراض ہوگئے ہیں۔ پھر میں نے ریپلائی کیاکہ سوری ایسا ممکن نہیں۔اس پر دوبارہ ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ اب کے ان کی ناراضی کا پکا یقین ہوا۔ وہ مجھ سے سینئر ہیں۔ میں نے بصد احترام عرض گذاری۔کہا سر جی مجھے سیاست سے الرجی سی ہے۔میں اس کام میں کبھی ملوث نہیں رہا۔اس قسم کی سرگرمیوں سے کوسوں دور بھاگتا ہوں۔اگر کسی پارٹی سے رغبت رکھی تو دل ہی دل میں اس کو پالا پوسا ہے۔کبھی ظاہر نہیں کیا۔لیکن میرے تمام جوابات کے بعد انھوں نے ایک آخری تیر نشانہ پر مارا۔پوچھنے لگے اچھا یہ بتلائیں ووٹ کس کو دیں گے۔ان کی اس ادا پر مجھے بہت ہنسی آئی۔اندازہ ہوا کہ بہت ہوشیار قسم کے عزیز سے واسطہ پڑا ہے۔شاید ڈنمارک میں ہوشیار لوگ رہتے ہیں۔یا پھر ہمارے ہاں سے جاکر وہا ں سمجھ دار ہو جاتے ہیں۔دل میں کہا ”ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے“۔میں نے ا ن کے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔اب کے میں نے چپ کی بکل اپنے گرد لپیٹ لی ہے۔کیونکہ ہم کبھی سیاست کی بھول بھلیوں میں گم نہیں ہوئے۔ بس جس کو ووٹ دینا تھا ووٹ دے دیا۔
کبھی سیاسی وابستگی کا پرچار نہیں کیا۔پھر نہ تو کسی جلوس میں حصہ لیا۔اگر کسی کے جلوس میں گئے تو صرف اتنا کہ تماشا دیکھنے۔کیونکہ یہ تو تماش بین کا اپنا حق ہوتا ہے جہاں کھڑے ہو کر دیکھتا رہے۔پھر نہ ہی ہاتھوں کے مکے بنا کر زندہ باد کے نعرے لگائے ہیں۔ان تمام باتوں کی ایک وجہ ہے۔میں نے ان سے کہا ایک تومیرے اخبار ریڈر بہت زیادہ ہیں۔جو میرا کالم شوق سے پڑھتے ہیں۔میرے کالموں پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ جانے وہ کون کون سی پارٹی میں شامل ہیں۔ مگر وہ مجھ سے برابر اُنس رکھتے ہیں۔ پھر اس کے بعد میرے سینکڑوں شاگرد ہیں جو بلاجواز مجھ سے محبت کرتے ہیں او رشدید کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد بلڈ ڈونیشن کا سفیر ماننے والے پورے ملک میں مجھے سوشل میڈیا کی وجہ سے جانتے ہیں۔ یہ لوگ مجھے فالو کر کے خون کے عطیات دیتے ہیں او ررسید کے طور پر مجھ سے سوشل میڈیا اور ذاتی تعلق داری کے موقع ہر اس کارِ خیر کے انجام دینے کااظہار کرتے ہیں۔میں اپنی سیاسی وابستگی ظاہر کر کے ان کو خفا نہیں کرنا چاہتا۔ ویسے بھی کلاس میں تمام طالب علم کسی نہ کسی پارٹی کو احسن نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر وہ ناسمجھ سہی مگر مجھ میں اتنی سمجھ ہونی چاہئے کہ میں کلاس روم میں اپنے سیاسی تعلق کا اظہار نہ کروں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ طالب علم اپنے پسندیدہ ٹیچر سے شدت کی حد تک پیار کرتے اور احترام ظاہر کرتے ہیں۔جب میں کمرہ ئ جماعت میں سیاست کی گرم بازاری پر کسی لیڈر کے حق میں ایک جملہ بھی بول دوں تو بعض سٹوڈنس کا دل ٹوٹ سکتا ہے۔سو جب سے میں کالج لائف میں آیا ہوں اور کالم نویسی شروع کی ہے پھر خون کے عطیات کے سبب فخرِ پشاور کا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔میں جو پہلے بھی ایسا نہ تھا اب بھی سیاست سے دل چسپی نہیں رکھتا۔جیسا کہ بڑے سکالراپنی سیاسی خواہشات پر کہ ملک کے چیف بن جائیں اپنی شہرت کھوچکے ہیں۔ہمارا کام تو اور ہے۔سیاست کے متوالوں کا کام جدا ہے۔ ان کو ان کا او رہمیں ہمارا منصب مبارک ہو۔ ہمارا رول عوامی ہے نہ کہ سیاسی ہے۔سیاست کے پہلوانوں کا کام بھی خدمت ہے اور ہمارا کام بھی عوام کی خدمت کرنا ہے۔مگر ان کے اور ہمارے انداز میں زمین آسمان کا فرق ہے۔وہ ایک دُوجے کو برا کہہ کر اپنے ووٹروں کے دل میں اپنا مقام بناتے ہیں۔پھر ہم سب کو اچھا کہہ کر اپنا فرض نبھاتے ہیں۔بھلا خون دینے سے کسی ایک گروہ کاکیا تعلق۔ خون کارنگ تو ایک ہے۔خواہ وہ مریض کسی پارٹی سے واسطہ رکھتا ہو۔
خدمت ہے سو ہم نے کرنا ہے۔خواہ کوئی ہمارا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔کوئی ہمارے خون کا پیاسا ہو مگر ہم نے اس کی رگوں کے ذریعے اس کے بیمار جسم کی یہ پیاس بجھانا ہے۔پھر ایک پیا س تو علم کی ہے۔یہ پیاس نہ صرف اپنی بلکہ اپنے سٹوڈنس کی بھی بجھا کر دکھانا ہے ایک شمع ہے علم کی۔ جس کو روشن رکھنا ہے۔ ”اک طرز ِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک۔ اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں“۔میں نہیں چاہتا کہ وٹس ایپ کے اردو انٹرویوتیاری کے گروپ کے دو  سوپچاس اراکین کی خفگی کا باعث بنوں۔شہر میں دو آدمی جانتے ہیں۔ وہ جو محفلوں میں ملتے ہیں اور احترام سے پیش آتے ہیں۔ کوئی شاگرد نکل آتا ہے اور کوئی کالم ریڈر کے طور پر محبت جتلاتا ہے۔یہ سب میرا سرمایہ ہیں۔میں اس دولت کو کھونا نہیں چاہتا۔ یہ خزانہ ہم نے بڑی مشکل اور جان کنی سے رب العزت کی طرف سے بطور ِ تحفہ حاصل کیا ہے۔وہ جو دولت کمانے میں لگے رہے وہ اپنی جگہ ہیں۔مگر ہم نے دولت کی بجائے جو کمایا وہ نیک نامی ہے۔