پراودا اور اذویستیا کے ناموں سے کسی دور میں سویت یونین میں دو اخبار شائع ہوتے ایک کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان تصور کیا جاتا اور دوسرا روسی حکومت کا پراودا کا روسی زبان میں مطلب سچ ہے جب کہ اذویستیا کے معنی ہیں خبر۔ ان دنوں امریکہ اور سویت یونین کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر تھی امریکی لکھاری بڑے طنزیہ انداز میں کہا کرتے کہ اذویستیا پڑھو تو اس میں کوئی پراودا نہیں ہوتا اور پراودا پڑھو تو اس میں کوئی اذویستیا نہیں ہوتی بالفاظ دیگر اگر پراودا کا مطالعہ کرو تو اس میں کوی خبر نہیں ملتی اور اگر ازویستیا کو پڑھو تو اس میں کوئی سچ نہیں ہوتا۔انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا میں ایسا انقلاب بپا کیا ہے کہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ اب کوئی ملک یا اس کا کوئی بھی ادارہ کسی جھوٹ کو چھپا نہیں سکتا اور نہ ہی کس واقعے کے بارے میں دروغ بیانی یا مبالغہ آ رائی کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی جرم کی پردہ پوشی کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح یورپ نے اس سے روزانہ کے معمولات زندگی میں بھرہور فائدہ اٹھایا ہے ہم بھی ویسا ہی کریں اس ضمن میں الیکٹرانک ووٹنگ کی ہی بات کر لیتے ہیں چونکہ آج ہو کہ کل ہم نے عام انتخابات کی طرف جانا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا میکینیزم وضع کیا جائے کہ دھاندلی ممکن ہی نہ ہو سکے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال آخر کئی ممالک کر ہی رہے ہیں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں کوئی سقم پایا گیا ہے تو اس کو رفع کرنے کیلئے انہوں نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں ان کی روشنی میں ہم بھی ضروری اقدامات کر سکتے ہیں۔اب بات ہو جائے امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ کی،بھارت اور امریکہ نے ایک مشترکہ بیان میں پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری، مضبوط اور ناقابل واپسی اقدامات کے ذریعے لازمی بنائے کہ پاکستانی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہو۔الٹا چوڑ کوتوال کو ڈانٹے، یعنی دہشت گردی اور امن دشمنی کا رویہ تو بھارت نے اپنایا ہواہے اور امریکہ کا کردار تو کسی سے پوشیدہ نہیں، اور ایسے میں یہ دو ممالک پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں، جو خود دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ بھارت اور امریکہ ہی ہیں جو پاکستان میں عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ وزارت خارجہ نے اس بیان پر سخت رد عمل دیا ہے اور اس بیان کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ دوسری طرف مبصرین نے اسے واشنگٹن کی طرف سے نئی دہلی کو خوش کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔یہ مشترکہ بیان ٹو پلس ٹو ڈائیلاگ کا حصہ تھا، جس کا اختتام واشنگٹن میں ہوا۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس ڈائیلاگ کے حوالے سے اپنے امریکی ہم منصبوں سے ملاقاتیں کیں۔دفتر خارجہ کی طرف سے اس بیان میں پاکستان کے غیر ضروری تذکرے کو مسترد کر دیا ہے۔دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ افسوناک امر ہے کہ دو ممالک کے دوطرفہ تعاون میں سیاسی وجوہات اور عوام کی توجہ دہشت گردی کے اصل خطرات سے ہٹانے کیلئے ایک تیسرے ملک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارت کی طرف سے یہ ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کی کوشش ہے۔ دیکھا جائے تو اس مشترکہ بیان کا لب ولہجہ بھارت کو خوش کرنے والا ہے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان کی سرزمین کبھی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوئی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے، ہزاروں جانوں اور اربوں ڈالرز کا ملک کو نقصان ہوا۔ دفاعی مبصر ین کے مطابق یہ بیان امریکہ کی طرف سے بھارت کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں خطے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں پاکستان رکاوٹ ہے کیونکہ وہ بھارت کو خطے کا تھانیدار بن کر کردار ادا کرنے نہیں دے رہا۔ اس لیے امریکہ کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے تاکہ وہ سی پیک کوبند کرے اور چین سے تعلقات کو خراب کرے، خطے میں بھارت کی بالادستی کو قبول کر لے، جو پاکستان کبھی نہیں کرے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑکے حوالے سے اب کوئی ابہام میں نہ رہے۔ ماضی میں امریکہ کا ساتھ دیکر پاکستان نے جو نقصانات اٹھائے ہیں اس کے بدلے میں اسے امریکہ کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چین اور روس کے مقابلے میں امریکہ جہاں یورپ میں اپنے اتحادیوں کو اُ بھار رہا ہے وہاں جنوبی ایشیاء میں بھارت کو چین کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کر رہا ہے۔جہاں تک پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی بات ہے تو اب یہ ماضی کا حصہ بن گئے ہیں۔ پاکستان کے مفادات اب چین کے ساتھ وابستہ ہیں جو دفاعی اور معاشی دونوں شعبوں میں پاکستان کو مضبوط بنارہا ہے جو بھارت اور امریکہ دونوں سے برداشت نہیں ہورہا۔