معاشی اصلاحات و انجام

سری لنکا نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے تناسب اور برآمدات اور ترسیلات زر کی وجہ سے پاکستان اور سری لنکا کی صورتحال ایک جیسی ہے۔ عالمی بینک نے رواں مالی سال کے لئے تین اعشاریہ چار اور اگلے مالی سال دوہزاربائیس تیئس کیلئے پاکستانی معیشت کی پیداواری بہتری (شرح نمو) کا تخمینہ چار فیصد ظاہر کیا ہے‘ جو بہرحال ملک کو درپیش معاشی بحران کے حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے کافی نہیں۔ عالمی بینک نے پاکستان کی جانب سے غیرملکی قرضوں اور اُن پر سود سمیت درآمدات کی ادائیگیوں کی صلاحیت پر بھی سوال اُٹھایا ہے اور ایک جائزہ پیش کیا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جو بات سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کا باعث بنی وہی مشکل پاکستان کو بھی درپیش ہے کہ پاکستان کی برآمدات کم لیکن درآمدات زیادہ ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق اگر پاکستان اپنا معاشی انجام سری لنکا سے مختلف دیکھنا چاہتا ہے تو اِسے فوری طور پر 2 اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایک اپنا بجٹ خسارہ کم کرنا ہوگا یعنی حکومت کو اتنے ہی اخراجات کرنا ہوں گے جتنی اِس کی آمدنی ہے۔
 چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا یہ مشورہ اگرچہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ دیا گیا ہے لیکن چونکہ اِس وقت ملک میں ایک نئی حکومت ہے جو معاشی اصلاحات کیلئے پرعزم ہے اور مختصر وقت میں معاشی بہتری کے کارہائے نمایاں سرانجام دینا چاہتی ہے تو ’بجٹ خسارہ‘ کم کرنے پر توجہ پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ عالمی بینک کی تجویز کردہ دوسری اصلاح جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارے سے متعلق ہے کہ پاکستان صرف اُتنی ہی درآمدات کرے‘ جتنی برآمدات کرتا ہے اور حکومت درآمدات کی حوصلہ شکنی کرے۔ کیا پاکستان کے فیصلہ ساز سری لنکا کے دیوالیہ ہونے سے کوئی سبق سیکھیں گے؟ پاکستان کی فوری معاشی بہتری کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی ڈیجیٹل خدمات کے شعبے کو ترقی دینا ہے جس سے برآمدات میں فوری اضافہ ممکن ہے۔ معاشی اصلاح کا دوسرا شعبہ سیاحت کی ترقی و بحالی ہے‘ جو کورونا وبا (فروری 2020ء) سے متاثر ہوا اور پاکستان میں سیاحت تاحال بحال نہیں ہوئی ہے۔
سری لنکا کو اب جس معاشی بحران کا سامنا ہے وہ دوسرے ممالک کیلئے بھی سبق آموز ہوسکتا ہے۔ سری لنکا اپنے بیرونی قرض کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے اور پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج کے زیر التوا اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگی نہیں کر پائے گا۔ یہ صورتحال چیلنجنگ ہے اور اس پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے جس کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ کی درآمد رک گئی ہے۔ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے سے اشیائے خوردونوش اور پیٹرولیم مصنوعات جیسی انتہائی ضروری ضروریات کی قیمتوں کا تعین حکومت نہیں بلکہ مارکیٹ کرے گی۔ دیوالیہ ہونے سے پہلے ہی درآمدات نہ ہونے سے ادویات کی شدید قلت تھی جس کی وجہ سے علاج گاہیں اپنا کام کاج نہیں کر پا رہی تھیں اور اِس صورتحال کے خلاف سری لنکا کے طول و عرض میں عوامی احتجاج جاری ہے۔سری لنکا کو اپنی معیشت بحال کرنے کیلئے اگلے تین سالوں میں آئی ایم ایف سے قریب تین ارب ڈالر درکار ہیں۔ 
پاکستان نے بھی بین الاقوامی خودمختار بانڈز کے ذریعے مارکیٹ سے قرض لینے کی حکمت عملی وضع کر رکھی ہے جن بانڈز کی فروخت سے فوری طور پر زرمبادلہ کا ذخیرہ تو حاصل ہو جائے گا لیکن جب اِن بانڈز کا عرصہ مکمل ہوگا اور سود سمیت اِن کی اصل قیمت ڈالروں میں ادا کرنا پڑے گی تو تب مالی وسائل کہاں سے آئیں گے؟۔ رواں برس پاکستان کو اپنی مالیاتی ذمہ داریاں (قرضہ جات کی اقساط و سود) ادا کرنے کیلئے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر صرف کم نہیں بلکہ اِن میں ہر دن کمی ہو رہی ہے اور ایسا اِس لئے ہو رہا ہے کہ حکومت برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی نہیں کر سکی۔ عالمی بینک نے اپنی دو سالانہ علاقائی اپ ڈیٹ میں خبردار کیا ہے کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے تناسب اور برآمدات اور ترسیلات زر جیسی ادائیگی کی کم صلاحیت جنوبی ایشیائی خطے میں پاکستان اور سری لنکا میں سب سے زیادہ ہے۔ سری لنکا میں صورتحال ’تشویشناک‘ ہے جہاں بڑھتے ہوئے مالی اور بیرونی خطرات کی وجہ سے خود مختار کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ 
عالمی بینک نے پاکستان کو بھی خبردار کیا ہے کہ سری لنکا کے معاشی انجام کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بجٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرے۔ ایسے میں ضروری ہے کہنئے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے نتیجے میں سیاحت اور تجارت کو فروغ دیا جائے۔ اگر حکومت اپنی آمدنی کے ذرائع میں اضافہ نہیں کرتی تو یقینا آنے والے دنوں میں شدید مالی بحران کھڑے ہو سکتے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے سے درآمدات پر اچانک مکمل پابندی عائد کرنا پڑے گی جس سے بنیادی ضروریات جیسا کہ ادویات‘ خوردنی اجناس اور کاغذ تک کی ملک میں کمی ہو جائے گی۔ اِس گھڑی دانشمندی اِسی میں ہے کہ غیر ملکی کرنسی کے کم ہوتے ذخائر کے تحفظ کیلئے درآمدات پر وسیع پابندیاں عائد کی جائیں لیکن صرف درآمدات ہی نہیں بلکہ پاکستان سے پیسے کی غیرقانونی اور قانونی ذرائع سے بیرون ملک منتقلی کو بھی روکنا ہوگا۔پاکستان سے غیرمشروط محبت کا امتحان سر پر آ پہنچا ہے۔ تو دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ قومی قرضوں میں مزید اضافہ کئے بغیر اِس بحران سے نکلنے کی کیا راہ نکالی جاتی ہے۔