دو اک دن پہلے تو موسم بہت سہانا ہو چلا تھا۔ کیونکہ فضا میں ایک خنکی سی پائی جاتی ہے۔شام گئے یخ بستہ ہواؤں کا راج تھا۔ ہواؤں میں چھپی ہوئی خنکیوں نے سرِ آسماں برف کے ریزے ہوں یوں ننھی منی بوندیں ٹپکانا شروع کر دی تھیں۔ صبح فجری اور سجری سمے کی ٹھنڈک نے تو پھر سے کمبل اوڑھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مگر اس کا احساس انھیں ہوا ہوگا جو بروز بدھ صبح دم ہوا خوری میں قدم اٹھاتے ہوں گے۔جو گھروں کی چار دیواریوں میں مقیم تھے انھیں یک گونہ یخی کا از خود رفتہ اور شگفتہ احساس ہوا تو ہوگا۔مگر اس پُر فضا عالم سے ٹھیک ٹھاک لطف لینے والے وہ تھے جو نماز فجر کے بعد خالی خولی شہر کی سڑکوں پر کسی کام سے یا یونہی خراماں خراماں چلے جا رہے ہوں۔شہر کی سیر کرنا ہو تو فجر کے بعد شہر میں اور شہر کے باہر گھوما جائے۔ شہر کہے گا اے فرزندِ پشاو رتم کہا ں تھے۔تجھے تو دیکھنے کو میری نگاہیں تر س گئی تھیں۔سڑکوں پر اندھیرے اُجالے کی کیفیت میں یوں لگے گا جیسے مکانات کی قطار نے آپ کے استقبال کو ہاتھ باندھ لئے ہوں۔اس شہر کو دیکھنا تو دن کے وقت ہو نہ سکے گا۔ کیونکہ آپ گاڑی چلا کر آگے دیکھیں گے یا دائیں بائیں نظر کریں گے۔صبح کے وقت تو سڑکیں خالی پڑی ہوتی ہیں۔ اس وقت کون اس راہ سے گذرتا ہے۔حالانکہ دن چڑھے سب کے سب کا گذر انہی شاہراہوں او رچورستوں پر سے ہوتا ہے۔مگر دن کو ہجوم میں گاڑی چلاتے وقت دائیں بائیں دیکھنا بہت خطرناک ثابت ہو سکتاہے۔
یہ صبح سویرے کا وقت ہے جب آپ یہاں وہاں دیکھ سکتے ہیں سیر کر سکتے ہیں۔ہر چند کہ پبلک نہ سہی مگر عمارات کا جن کو روز اچٹتی ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہیں نیا تعارف سامنے آتا ہے۔یہ بہت سرسبز شہر ہے۔اگرچہ کہ یہاں پھولوں کی وہی بہار جو ماضی میں اس کی شناخت تھی نہ رہی۔مگر سبزہ اور درختوں کی گھنی چھاؤں اب بھی موجود ہے۔شہر کے باہر کی فضا میں قدم بوس ہوں تو معلوم ہوتا کہ ”اُگ رہا ہے درو دیوار پہ سبزہ غالب“۔کیونکہ دن بھرکی دھول مٹی اور گرد وغبار بیٹھ چکے ہوتے ہیں۔پھر شام گئے اور رات کے وقت یہ مٹی کے غبار مکمل چھٹ جاتے ہیں۔ اس لئے صبح کے وقت کی آب و ہوا بہت صاف ہوتی ہے۔اس میں گھوم کر سانس لینے سے طمانیت اور صحت کا احساس ہو تاہے۔منگل کو تو شام سے پہلے شام کا سماں تھا۔ جھکڑ چلے مٹیاں اڑنے لگیں۔ایک دم سے موسم کی تلخی کااحساس خوشگواری میں بد ل گیا۔اوپر فلیٹ کی کھڑکی سے جو مین سڑک پر کھلتی ہے لگ کر بیٹھے یوں لگا کہ ایئر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہوا میں مزے لئے جاتے ہوں۔کیونکہ پشاو رکے باہر بارشیں تھیں۔
ظاہر ہے کہ موسم کی اس بہتر تبدیلی کے اثرات اس شہرِ گل عذاراں پر بھی مرتب ہونے تھے۔ ہم نے تو عصر کے وقت اپنے لوہے کے گھوڑے کی ہیڈ لائٹ جلا لی تھی۔ اس لئے کہ کسی سے ٹکرا نہ جائیں یا کوئی ہمیں سڑک پر موجودگی کے عالم میں غیر موجود پاکر کچل نہ دے۔یوں اندھیری کا عالم تھا کہ ٹریفک کے سیلاب میں بہہ کر آگے جانے والوں نے احتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔خدا کی قدرت بھی عجیب ہے۔ابھی تو دھوپ تھی او رابھی کے ابھی ٹھنڈک پھر اتنی کہ اندھیرا ہو گیا۔اس رات توغریبوں کی بھی سنی گئی او رانھوں نے موسم کی یخی کو انجوائے کیا۔تقدیریں بھی ایسے پل جھل میں بدل جایا کرتی ہیں۔مگر اگر اس کااوپر سے حکم جاری ہو جائے۔ تب دربارِ اعلیٰ میں بے کسو ں کی شنوائی ہو جاتی ہے۔وہ اچانک کے ا س پھیر میں چارسُوبدل جاتے ہیں۔وہ جن بازاروں کو بعد اشراق دیکھنے کو نگاہیں ترس جاتی ہیں۔اس فجر کے وقت میں فطرت اپنا سب کچھ بندے پر عیاں کردیتی ہیں۔آپ شہر میں گھوم کر ہر کہیں جا سکتے ہیں۔راستے میں نہ کوئی مزاحمت ہوگی نہ کوئی اور مزاحم ہوگا۔آپ کے گھوڑے کا عناں گیر کوئی نہ ہوگا راہگیر کوئی نہ ہوگافقیر کوئی نہ ہوگا۔ دکانیں بند ہوں گی مارکیٹوں کو تالے لگے ہوں گے۔ٹریفک سارجنٹ بھی کسی جانب غلطی سے بھی نظر نہ آئے گا۔
ہاں ان دنوں اس وقت اگر کوئی دکان کھلی ہوگی توچھوٹی عید کیلئے گاہکوں کے جوڑے سینے کے لئے درزی دکانیں کھول کر بیٹھے ہوں گے۔باقی سارا شہر بھاں بھاں کر تاہوگا۔ دل تو اداس نہ ہوگا خوش ہوگا کہ ہم شہر کو اپنی آنکھوں کھول کھول کر اور محسوس کر کے دیکھ رہے ہوں گے۔”میں اُسے دیکھوں بھلاکب مجھ سے دیکھا جائے ہے“۔ہاں مگر اس وقت اگر ناصر کاظمی کا شعر یاد آجائے تو کیا مذائقہ ہے”دل تو میرا اُداس ہے ناصر۔شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے“۔ یہ تھوڑی دیر کیلئے سناٹا اور وہ بھی اس شہرِ پُر شور میں کتنااچھا لگتاہے‘ نسیم ِ سحر کے ہلکے جھونکوں سے جھولتی لہراتی نشہ میں جھومتی درخت کی شاخیں ان کے ہلتے جلتے پتے نگاہوں کو ایک ترو تازگی مہیاکرتے ہیں۔آدمی سوچنے لگتا ہے کہ بھرے پُرے شہر کو چھوڑکر یہ سب شہری کہاں چلے گئے ہیں۔شہر کی فطرت کو بے لباسی کے عالم میں دیکھنا ہوتو صبح سمے کا یہ سماں دیکھنے لائق ہوتا ہے۔