وقت بڑی عالمی طاقت ہے اور اِسی عالمی طاقت کو حاکم دیکھا جاسکتا ہے۔ یادش بخیر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جن ممالک نے دنیا کے کمزور ممالک پر تسلط قائم کرنے اور انہیں اپنے تابع رکھنے کے لئے ”نیوورلڈ آرڈر“ متعارف کروایا تھا۔ دنیا کے جن ممالک میں بھی حکومت مخالف یا آزادی کے حصول کی تحریکیں چل رہی ہیں‘ ان کی حمایت یا مخالفت میں بالواسطہ یا براہ راست امریکی عمل دخل کی کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں۔ ہمارے خطے میں بھی امریکہ کا اثرورسوخ عشروں سے قائم ہے۔نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف نیٹو تنظیم میں شامل ممالک کے ساتھ مل کر جنگ کا آغاز کیا تو اس مقصد کے لئے سب سے پہلے پاکستان سے معاونت طلب کی گئی چنانچہ اُس وقت کے حکمران نے امریکی جنرل کولن پاؤل کی ٹیلی فونک کال پر مکمل سپورٹ کرنے پر آمادگی ظاہر کردی اور پھر امریکہ کے ”ڈومور“ کے مطالبے کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس کے ساتھ ”حق دوستی“ نبھایا۔
امریکہ نے پاکستان ہی کے وسائل استعمال کرکے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس کے ردعمل میں پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین آباد ہوگئے۔ ملکی معیشت تباہ ہوگئی‘ اور مسائل میں بے پایاں اضافہ ہوا لیکن پاکستان کے اس قدر نقصان اٹھانے کے باوجود امریکہ کی تسلی نہ ہوئی اور اس کے مطالبات کی فہرست لمبی ہوتی چلی گئی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے واپس لوٹنے پربھی اپنی ہزیمت کا ذمہ دار امریکہ نے پاکستان ہی کو ٹھہرایا۔ عمران خان کی حکومت سے امریکی سردمہری کی بڑی وجہ بھی افغانستان سے امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی واپسی ہی قرار دی گئی جس کے بعد جوبائیڈن حکومت نے پاکستان کے ساتھ ناخوشگوار رویہ اپنائے رکھا جو معروضی حالات میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عمران خان کے وائٹ ہاؤس میں کارپٹیڈ استقبال کے قطعی برعکس تھا جبکہ تحریک انصاف حکومت ’ایف اے ٹی ایف‘ اور ’آئی ایم ایف‘ کی شرائط پر من و عن عملدرآمد کرکے امریکہ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا بھی عندیہ دے چکی تھی۔
بہرحال اب نئی حکومت نے واضح طور پر کہا ہے کہ ”امریکہ کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دیئے جائیں گے۔“ سابقہ امریکی حکومت نے پاکستان ایسے اتحادی ملک کے ساتھ مخاصمانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے تعلقات میں بہتری لانا تو ایک طرف الٹا کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں ملنے والی فوجی امداد تک بند کر دی تھی اور یہ پابندی تاحال تک برقرار ہے۔ جسے بہرحال بحال ہونا چاہئے۔ اسی طرح پاکستان کی مسلح افواج اور شہریوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو اَسی ہزار انسانی جانوں کی قربانیاں دیں اور ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا اس کا بھی کھلے دل کے ساتھ اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ بہتر و خوشگوار دوطرفہ تعلقات قائم کرنے کا عندیہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن اِس کا عملی اظہار پاکستان کی امداد بحال ہونے کی صورت ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان نے امریکہ کی دوستی میں بہت سے نقصانات اُٹھائے ہیں اور وقت ہے کہ اِن کا زبانی کلامی نہیں بلکہ عملاً ازالہ کیا جائے۔