کسی نہ کسی تقریب میں کوئی نہ کوئی ملتا رہتا ہے۔جس کے ساتھ اپنے کالم کے حوالے سے بات ہوتی ہے۔کوئی کس طرح اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور کوئی کسی اور طرح اپنی رائے دیتا ہے۔بعض تو تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں۔پھر ایسے بھی ہیں جو جھاڑ بھی پلا دیتے ہیں۔ان میں سے ایک ریاض نومی بھی ہیں۔میں تو ہر ایک کے مشورے کو دل سے اچھا سمجھتا ہوں۔ چاہے وہ تعریف کریں یا مخالفت میں بولیں۔مجھے دونوں سے رہنمائی ملتی ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ ہماری کالم رائٹنگ کے بارے میں عوام کیا سوچتے ہیں۔انھیں آرء ا کی مشعل کی وجہ سے مجھے اپنی اندھیری راہوں میں روشنیاں تلاش کرناپڑتی ہیں۔جب تک کسی بھی معاملے میں کسی معاملے کا قلابہ عام آدمی کے ساتھ نہ ملتا ہو ان کی رایوں کا فیڈ بیک نہ آئے تو سمجھو کہ بندہ کو آئینہ نظر نہیں آیا۔ جس میں ایک آدمی اپنے چہرے کے خال و خد دیکھ کر اپنی خامیاں درست کر سکے کیونکہ جب تک کوئی بھی رائٹر اپنے دل اور دماغ میں موجودکسی موضوع پر لکھتا نہیں۔ وہ عنوان جب تک اس کے ذہن میں ہوتا ہے صرف اور صرف اسی کا ہی ہوتاہے۔مگر جب وہ دماغ سے اُتار کرلکھنے کے بعد منظر عام پر لاتا ہے تو وہ مضمون ہو یا افسانہ شعر ہو یاکالم ہو۔ وہ تحریر رائٹر کی نہیں رہتی۔
پھر اس پر ہر پڑھنے والے کا حق ہوتا ہے کہ وہ اس تحریر کو کیا معنی دیتا ہے۔پھروہ شعر اور وہ انشائیہ پڑھنے والے کا ہو جاتا ہے۔جب اتنا معلوم ہے تو ہم کسی مہربان کے ساتھ اپنے کالموں کے موضوع پر بحث و تکرار کیوں کریں گے۔اس لئے کہ ممکن ہے کالم کی تحریر میں جس مسئلے پر ہم نے بحث کا ڈول ڈالا ہوتا ہے وہ انتہائی سطحی ہو۔ پھر اس کو عام قاری نے پڑھ کر زمین سے آسمان تک پہنچا دیا ہو۔سو بحث سے نقصان یہ کہ قاری نے اپنی پسند کے مطالب سے کالم کو سمجھ کے دھاگوں میں پرویا ہوتا ہے۔مگر جب ہم بحث کریں گے تو ہم خود اپنے کالم کے معانی کو محدود کر دیں گے۔ اس لئے بھلائی اسی میں ہے کہ اگر تعریف بھی ہو تو چپ کرکے سننا چاہئے۔ پھر اگر کوئی برا بھی کہے تو اس کا حق ہے۔اس لئے کہ اس نے تحریر کو اپنا جان کر اس میں سے نقص نکالے ہیں۔ اگر وہ اس کالم کو اون نہ کرتا تو اس پر نہ تو بحث کرتا اور نہ ہی اس کے مطالب کی تنقید و تشریح کرتا۔کسی کالم کو تنقید کا نشانہ بنانے کا صاف مطلب ہے کہ اس نے اپنا قیمتی ٹائم نکال کرمیرا کالم پڑھا ہے۔کیونکہ آج کسی کے پاس فالتو وقت نہیں کہ کسی کالکھا آرٹیکل پڑھنے بیٹھ جائے۔
پچھلے دنوں ایک روزہ کشائی کے موقع پریہی عزیز ملے۔ بلکہ دوسرے رشتہ داروں سے سنا کہ وہ میرا پوچھ رہے تھے کہ کہاں ہیں۔خیر میں ان کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہ اسی تاک میں تھے کہ مجھے کہیں سے پائیں اور لتاڑیں۔ کھانے پینے کے بعد جانے لگا تو انھوں نے روک لیا۔چونکہ رشتہ دار ہیں اور قریب کے ہیں سو انھوں نے کہا آپ ذرا ادھرآئیں نا۔میں نے جب اس طرح کا انداز دیکھا تو دل میں کہا آسمان کے تیور درست نہیں۔انھوں نے ایک سے کہا یار توشک سے ہٹ جا ا ن کو جگہ دے۔ہمارے اس عزیز کو ایک تو شعر و شاعری بہت آتی ہے۔وہ بھی دوسرے شاعروں کاکلام ان کو یاد ہے۔کہنے لگے یہ آپ کالموں میں کیا لکھتے رہتے ہیں۔ میں نے دل میں تہیہ کیا تھا کہ میں نے تو نہ صفائی میں کچھ کہنا ہے او رنہ ان سے اوپر اٹھ کر بات کرناہے۔فرمانے لگے آپ کی مثال ہے جیسے وہ گانا”میں نکلا گڈی لے کے۔آگے اک موڑ آیا۔ میں دل وہاں چھوڑآیا“۔ موٹر سائیکل کے تذکرے کے بغیر آپ رہ نہیں سکتے۔کوڑے کرکٹ کا اظہار بہت صفائی کی حد تک کرتے ہیں۔ذرا پشاور سے نکلیں۔ کیونکہ اور شہر بھی ہیں۔دنیا جہان کے موضوعات ہیں۔آپ کے پاس اگر موضوعات کی کمی ہے تو میں آپ کو پوائنٹ دیتا ہوں۔ ذرا ملک کی سیاست پر نظر کریں۔”پشاور سے آگے جہاں او ربھی ہیں“۔انھوں نے اپنی گفتگو میں وہی شاعری کاتڑکا لگایا۔فرمایا اس موقع پر شاعر نے کہاہے۔ پھر اس کے بعد ایک نہیں ایک کے بعد ایک شعر اور پوری غزل اپنے سے لہجے میں سنا ڈالی۔ہم نے کھوئی ہوئی آنکھوں سے وہ غزل سنی جو پہلے کبھی زندگی میں نہ سنی تھی۔