ملک کو درپیش اہم قومی مسائل

 اس ملک کو آ ج جو مسائل درپیش ہیں وہ اس قدر ہنگامی نوعیت کے ہیں کہ ان کے حل تلاش کرنے کی  فی الفورکوشش ضروری ہے۔  اس میں سب سے  بڑا مسئلہ بلاشبہ توانائی کے بحران کا ہے جس کا ہر دور میں سامنا رہتا ہے اور جس سے ملکی ترقی کا سفر بری طرح متاثر ہورہا ہے۔پانی سے بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبے عرصہ دراز سے سامنے نہیں آرہے تھے، پچھلی حکومت میں ایک دو منصوبوں پر کام شرو ع  ہوا ہے جس کو جلد از جلد تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ  ملک میں ممکنہ پانی کی قلت کا بھی  حل جلد ا زجلد سامنے آنا چاہئے۔وہ وقت دور نہیں جب ممالک کے درمیان پانی پر جنگیں ہوں گی جبکہ اس وقت ہم جس طرح پانی کی دولت کو ضائع کررہے ہیں وہ لمحہ فکریہ ہے۔ اب کچھ تذکرہ عالمی حالات کا ہوجائے، یوکرین میں جس طرح روس کو جنگ پر مجبور کیا گیا اب لگتا ہے کہ امریکہ تائیوان کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور تائیوان کو امریکہ کارڈ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔تازہ ترین خبروں کے مطابق  چین نے  تائیوان کے دارلحکومت تائپے میں امریکہ فوجی وفد کی آمد پر علاقے میں فوجی مشقوں کا اعلان کر دیا ہے

۔بیجنگ میں حکام کا کہنا ہے کہ 15 مارچ  کو تائی پے میں ایک اعلی سطحی امریکی وفد کے مذاکرات کیلئے پہنچنے کے چند گھنٹے بعد ہی چینی فوج نے تائیوان کے آس پاس اپنی تازہ فوجی مشقیں کیں۔ایک سرکاری بیان کے مطابق چینی فوج نے مشرقی بحیرہ چین میں ایک بحری بیڑے کے ساتھ ہی بمبار اور دیگر جنگی طیارے بھیجے اور تائیوان کے آس پاس سمندر اور فضائی حدود میں کثیرالجہتی ہتھیاروں والی مشترکہ جنگی تیاریوں کیلئے گشت کیا۔بیجنگ حکومت کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد امریکی حکومت کی جانب سے بار بار کیے جانے والے غلط اشاروں کا مقابلہ کرنا تھا۔ تاہم اس بیان میں تائیوان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد کا ذکر نہیں کیا گیا۔چینی حکومت نے اپنے بیان میں مزید کہا، امریکہ کے برے اقدامات اور اس کی چالیں مکمل طور پر فضول اور بہت ہی خطرناک ہیں۔ جو لوگ آگ سے کھیلتے ہیں وہ خود اسی میں جل جائیں گے۔ دیکھا جائے تویوکرین پر روسی حملے کے بعد اب مغربی میڈیا تائیوان پر چین کے حملے کا ڈھنڈورا پیٹنے لگا ہے۔ تائیوان کی فوج نے اس ہفتے اپنی نئی مشقیں شروع کی  ہیں۔ اس میں تقریبا 15 ہزار ریزرو فوجی ان مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں

جو رواں برس کے بیشتر حصے میں جاری رہیں گی۔امریکہ تائیوان کا سب سے بڑا تحادی ہے اور اس نے حالیہ برسوں میں جزیرے کیلئے ہتھیاروں کی اپنی فروخت میں اضافہ کیا ہے۔تائی پے کا دورہ کرنے والے نیو جرسی کے سینیٹر رابرٹ مینینڈیز نے کہا کہ چونکہ تائیوان کاروں اور فونز میں استعمال ہونے والی سیمی کنڈکٹر چپس کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے، اس لیے تائیوان کی سکیورٹی عالمی اثرات کی حامل ہے۔ گزشتہ دو مہینوں میں یہ دوسرا اعلی سطحی امریکی دورہ ہے۔تائیوان کے صدر تسائی انگ وین نے بات چیت کے دوران کہا کہ یوکرین پر روسی حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہوری ممالک کو اپنے اتحاد کو مضبوط کرنا چاہئے۔کیرولائنا سے سینیٹر لنڈسے گراہم، جنہوں نے چھ افراد پر مشتمل امریکی وفد کی قیادت کی، نے کہا کہ چین کی اشتعال انگیزی اور یوکرین میں روسی جنگ میں اس کی حمایت نے امریکہ کو تائیوان کے پیچھے متحد کر دیا ہے۔گراہم نے صدر سائی کو بتایا، چین جو کچھ بھی پوری دنیا میں کر رہا ہے، ہم اسے اس کی زیادہ قیمت ادا کرنے کا آغاز کر رہے ہیں۔ ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہونگے‘یہ وہ اشتعال انگیز باتیں ہیں جن کے ذریعے امریکہ کی کوشش ہے کہ چین کو مشتعل کرے کہ وہ تائیوان کے خلاف کوئی مہم جوئی کرے اور روس کی طرح اسے بھی پابندیوں کا شکار کرکے معاشی مشکلات سے دوچار کیا جائے۔

چین کو اس حوالے سے ہوشیار رہنا پڑیگا۔ دوسری طرف بھارت میں مودی سرکاری نے آرایس ایس کے  ایجنڈے پر عمل درآمد تیز کردیا ہے اور وہاں پر مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس آیس کے سربراہ موہن بھاگوت  نے حال ہی میں زہر افشانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہ اگلے 15 برس میں اکھنڈ بھارت کا خواب حقیقت میں بدل جائے گا۔ساتھ ہی اس نے نے بھارت کوہندو راشٹر قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ بھارت کو اپنا ہدف حاصل کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا اوراس کو روکنے والے ہٹ جائیں گے یا پھر مٹ جائیں گے۔ماہرین اور تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام خام خیالی کے سوا کچھ نہیں اور موہن بھاگوت نے  بھارت کے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔کیونکہ بھارت میں جس طرح کے حالات کا اقلیتوں کو سامنا ہے اور جس طرح بے چینی پورے بھار ت میں پھیلی ہوئی ہے اس  کو دیکھتے ہوئے بھارت کے تقسیم در تقسیم کا عمل کسی بھی وقت شروع ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت بھارت کو زبردست داخلی کشیدگی کا سامنا ہے۔ سماج اور طبقاتی نظام سے لے کر ذات پات تک جیسے موضوعات پر دیگر اقلیتوں سے ہٹ کر خودہندوؤں میں بے چینی موجود ہے۔ایسے میں آر ایس ایس کو موجودہ بھارت کی فکر کرنی چاہئے جس کے شکست ریخت کے عمل کا جلد آغاز ہو سکتا ہے۔