کسی ملک و معاشرے کیلئے سب سے بڑے خطرات میں نفرت، ہیجان، رقابت، انتہا پسندی اور انتشار پسندی شامل ہیں اور اگر ان کو ختم یا کم کرنے کیلئے فوری اقدامات نہ کئے جائیں تو یہ معاشرے میں امن وسکون تباہ کرنے اور ظلم و فساد کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے برعکس اعتدال، رواداری، بھائی چارہ اور باہمی محبت استحکام اور خوشحالی لاتے ہیں۔ غلطیاں اور خوبیاں ہر ایک میں ہوتی ہیں پھر حکومت اور حزب اختلاف دونوں جمہوری نظام کے لازمی جزو ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو ختم نہیں کرسکتا۔ دونوں کروڑوں پاکستانیوں کے نمائندے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ اگر سیاستدان بہتر طرزِ حکمرانی اور معاشی خوشحالی لانے میں ناکام رہے تو ان کے حامی نوجوان پرامن جمہوری تبدیلی سے مایوس ہو جائیں گے۔ ملک کو درپیش مسال حل کرنا کسی ایک فرد اور پارٹی کے بس کا کام نہیں۔ سابقہ حکمرانوں کو ملک کی تمام مشکلات کا ذمہ دار قرار دینے سے بھی ملکی معیشت بہتر اور قوم خوشحال نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ احترام، رواداری اور تعاون کی بنیاد پر پرامن بقائے باہمی ہی واحد راستہ ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان نفرت اور غلط فہمیوں کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر جماعت کو دوسری پر شک ہے کہ یہ اس کو نقصان پہچانا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ سے ان کے باہمی رابطے ختم ہیں۔ دہرے طرزعمل اور چنیدہ اخلاقیات نے بھی ہماری سیاست کو متاثر کیا ہے۔
جس کی وجہ سے خاکم بدہن، ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔اس باہمی نفرت اور دشمنی نے جس طرح ملک کو دو متحارب گروہوں میں تقسیم کردیا اور سیاسی فضا کو مکدر کردیا ہے، اس سے نکلنے کیلئے سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے مابین قومی مکالمہ، مفاہمت اور میثاق ناگزیر ہوگئے ہیں تاکہ جلد از جلد ملکی معیشت اور حکومتی و انتخابی نظام میں درکار اصلاحات پر ایک جامع میثاق پر دستخط کیے جاسکیں۔مگر افسوس کہ کوئی ایسا رہنما ابھی تک سامنے نہیں آ رہا جو اس نفرت اور ہیجان کی جگہ قومی مفاہمت اور قومی مکالمہ کروائے اور سب کو سمجھا دے کہ خود کو اور اپنے حامیوں کو ہی صرف محب وطن سمجھنا اور مخالفین کو وطن دشمن کہنا مناسب نہیں جس کے بعد ہر سیاسی رہنما دوسری جماعتوں کے قائدین سے رابطہ کرے، عزت و احترام دے اور یہ کہ آئندہ مخالفین کی کامیابی برداشت کرنے اور پارلیمنٹ، جمہوریت، انتخابات، سیاسی نظام اور حکومتی اداروں کو مستحکم کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر سیاسی رہنما میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی، اس طرح سیاسی کارکن، خواہ کسی بھی پارٹی کے ہوں، اثاثہ ہوتے ہیں۔
ان کے جذبات اور احساسات کا احترام لازمی ہے اور ان کے قائد کا احترام بھی۔سب سیاستدانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی باہمی نفرت، بدگمانیوں، الزامات اور مقاطعہ کی وجہ سے قوم کرب میں ہے اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہے اور جتنا جلد وہ باہمی رواداری، معافی، مفاہمت، بھائی چارے اور خوشگوار تعلقات کے راستے پر آجائیں اتنا ہی بہتر ہے۔سب رہنما ملک اور جمہوریت کے مفاد میں فیصلہ کریں کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں بات کرتے وقت اپنے الفاظ اور انداز دونوں کو مناسب، متوازن، باوقار اور شائستہ رکھیں گے۔ سیاست کو دشمنی بنانے سے پرہیز کریں۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ شہباز شریف صاحب وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ انہیں دل بڑا کرکے سب رہنماؤں کو ملاقات اور قومی مکالمے کی دعوت دینی چاہئے اور ان کی مدد سے معاشی ترقی، ٹیکس اصلاحات، فیٹف، احتساب، انتخابی اصلاحات وغیرہ پر مشتمل ایک میثاقِ معیشت و سیاست مرتب کروائیں اور سب سے دستخط کروالیں۔