چین کے ملک میں ایک کہاوت بولی جاتی ہے۔یہ کہ دودن مطالعہ نہ کرو تو آدمی کی بول چال میں مٹھاس کم ہونے لگتی ہے۔کتنی سچی بات ہے۔پھر تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہے بھی۔ کہاوتیں‘ مقولے‘ مثل اور ضرب المثل یونہی بن جایا نہیں کرتے۔ان میں قومو ں کا صدیوں کا تجربہ شامل ِ حال ہوتا ہے۔واقعی مطالعہ کی دو ایک دن بھی کمی ہو توآدمی سخت دل ہونے لگتا ہے۔پھر ایسے میں یہ اندازہ لگانا کون سا مشکل ہے کہ اگر آدمی کے مطالعہ کی عادت میں لمبا وقفہ آئے یا وہ سرے سے کتابوں کے پڑھنے کا شوقین نہ ہو تو اس کے لہجے کی ناہمواری کاکیا حال ہوگا۔مطالعہ تو ہر لحاظ سے او رہر قوم میں پسندیدہ نظر سے دیکھا گیا ہے۔مطلب یہ بھی نہیں کہ اگر آپ کے ہاتھ میں کتاب نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ آپ کی سوچ میں ملائمت نہ ہوگی۔ کتاب نہ ہو کتاب کو موبائل سے پڑھ رہے ہوں تو بھی یہ مطالعہ ہے۔موبائل پر کوئی دستاویزی فلم دیکھ رہے ہوں تب بھی مطالعہ میں شامل ہے۔کیونکہ آج کل مطالعہ کیلئے کتاب کی جگہ کوموبائل نے قبضہ کرلیا ہے۔موبائل پر اچھی اچھی کتابیں پڑھنے سے آدمی کا دماغ کھل جاتا ہے۔مطالعہ سے دماغ کو نئی راہیں سجھائی دینے سے یہی مراد ہے کہ آدمی کو اچھے برے میں تمیز حاصل ہوجاتی ہے۔پھرکتاب میں تو لکھی لکھائی باتیں ہیں۔ موبائل پر تو افسانے وغیرہ سب کچھ ڈرامہ کی صورت میں دکھاتے بھی ہیں۔
کسی مشہور افسانہ نگار کا افسانہ اگر کسی کتاب میں ملنا مشکل ہوا جاتا ہے تو یوٹیوب پر سے نکال لیں۔وہاں سے پڑھنااور انجوائے کرناشروع کر دیں۔ اگر اس افسانے کوپڑھنا نہیں چاہتے تو معروف رائٹر کی کہانیاں ڈرامہ کی صورت میں بنا کر دکھائی جاتی ہیں۔لگتا ہے پشاور کے افسانہ نگار خالد سہیل ملک کے افسانے بھی عنقریب نیٹ پر ڈرامائی شکل میں دستیاب ہوں گے۔کہانی کار کے فن میں جان ہونی چاہئے۔ پھرایک دن اس کی مہارت اپنا لوہا منوا لیتی ہے۔اگر اس میں پچاس سال بھی لگ جائیں تو برا نہیں۔امجد اسلام امجد کا خوبصورت شعر ہے ”سمومِ وقت نے لہجے کوزخم زخم کیا۔وگرنہ ہم نے قرینے صبا کے رکھے تھے“۔ مطالعہ کی عادت سے لب ولجہ شیریں ہونے لگتا ہے۔لہجے میں بادِ صبا کا سا انداز در آتا ہے۔جیسے بادِ صبا پھولوں میں رنگ بھرتی ہے۔اسی طرح لہجے کی شیرینی دوسرے کو متاثر کرتی ہے۔پھر احمد فراز کے شعر جیسی کیفیت ہو نے لگتی ہے”سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں“۔پھر حتیٰ کہ احمد ندیم قاسمی نے جیسے کہا ”چاند جب دور افق میں ڈوبا۔ تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی“۔مطالعہ بہت اچھا عمل ہے۔جس سے ہمہ وقت اپنے عمل کا حساب یاد رہتا ہے۔وہ جو مطالعہ نہیں بھی کرتے مگر ان کے لہجے میں صبا کے قرینے موجودہوتے ہیں۔ وہ شائستہ گفتار اپنے گھر کی تربیت اور اپنے بزرگوں کی صحبت سے مطالعہ کی انتہا تک پہنچے ہوتے ہیں۔ ان کی ایک نشانی یہ بھی ہے عوام خود ان کی زندگی کی کتاب کو ورق ورق مطالعہ کرتے ہوتے ہیں۔یہ لوگ نایاب ہوتے ہیں۔
جنھیں ملکوں ملکوں گھوم کر دستیاب نہیں کیا جا سکتا۔ بقول میر ”مت سہل ہمیں جانوپھرتا ہے فلک برسوں۔ تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں“۔ پھر اگر وہ نایاب ہونے لگیں تو ان کی یاد سے یہ کہہ کر جیسا ساغر صدیقی نے کہا کام چلایا جاتا ہے ”وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں۔انھیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے“۔آج کل کتابیں مہنگی ہیں۔کتاب خرید کر پڑھنا بہت دشوار ہوا جاتا ہے۔آدمی اپنے بال بچوں کیلئے روٹی کا بندوبست کرے یا کتابیں خریدے۔اگر کریم پورہ میں اولڈ بکس ہاؤس کا رخ بھی کرے تو وہاں کون سے سستے داموں کتابیں ملتی ہیں۔لیکن اگر کتاب اگر دستیاب نہ ہو تو پھر اس شعر پر عمل کرنے میں کیا حرج ہے ”فطرت نے جو لکھے ہیں وہ کتبے پڑھا کرو۔مہنگی ہیں گر کتابیں تو چہرے پڑھا کرو“۔مطالعہ ہر لحاظ سے ضروری ہے۔دوسری یہ بات بھی ہے کہ کتابیں ہزار مہنگی ہوں پڑھنے کے شوقین حضرات کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر اپنے گھریلو بجٹ میں سے کوئی چھوٹی موٹی رقم نکال کر کتابیں خریدلاتے ہیں۔یہ بہت اچھی بات ہے۔مگر مزا اس وقت آتا ہے جب ان کتابوں میں لکھی ہوئی اچھی باتوں پر عمل بھی کیا جائے۔کتابیں بھی پڑھ رکھی ہوں اورآدمی کا عمل بھی قابلِ اعتراض ہو تو پھر مطالعہ کا بھی کیا فائدہ۔انگریزی کے پروفیسر یونس کامرس کالج میں ہوا کرتے تھے۔ والد کے دوست تھے۔ برسوں پہلے انتقال کیا۔مگر کتابوں کے بہت رسیا تھے۔
ہم اس وقت زمانہ ئ طالب علمی سے گذر رہے تھے۔ مگر والد کے ساتھ ان کی باتوں پر ہمارا دھیان ہوتا تھا۔ بہت نئی نئی باتیں کرتے تھے۔ ان کے لہجے میں صبا کے قرینے ہی تھے جو ہم ان کی گفتگو کی کشش میں ان سے چپکے رہتے تھے۔وہ اپنی تنخواہ میں سے کتابیں خریدنے کیلئے چھوٹی رقم نکال لیا کرتے تھے۔ ہر ماہ کچھ نہ کچھ کتابیں خریدلیتے تھے۔ ان جیسے لوگ اب بھی ہیں مگر گذرتے زمانے کے ساتھ کم کم ہیں۔کیونکہ آج کل زمانے کے انداز بدل سے گئے ہیں۔آج کل کتابوں سے ہٹ کرشہریوں کا دھیان روٹیوں کی طرف ہے۔کتابیں کتنی لانا ہے یہ سوچ خاک ہوئی جاتی ہے۔اب تو گھر سے نکلتے ہوئے پوچھتے ہیں روٹیاں کتنی لانی ہیں۔