صحت مند سیاسی روایات کا فقدان

گزشتہ ہفتے کے دن لاہور میں پنجاب اسمبلی کے اندر جو دنگا فسادہوا اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہم لوگ اچھی سیاسی روایات سے ابھی کوسوں میل دورہیں ہماری اس قسم کی دھینگا مشتی سے نئی نسل کو بھلا کیا پیغام گیا ہوگا جو طرز عمل ہمارے معزز اراکین اسمبلی نے اسمبلی کے فلور پر اختیار کیا وہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں۔ڈپٹی سپیکر کے بال نوچے گئے اور سپیکر کا ہاتھ توڑا گیا ان واقعات کے ظہور پذیرہونے سے نہ تو عوام میں اچھا تاثر جاتا ہے اور نہ ہی باہر کی دنیا میں۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں جمہوریت کی گاڑی کے پہیے ہیں اور ان دونوں کا ساتھ رہنا ضروری ہے۔ اگر حزب اختلاف نہ ہو تو حکومت کا محاسبہ کون کریگا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انتخابات کا عمل ایک تسلسل کے ساتھ مقررہ وقت پر ہوکہ یہ ایک مہنگا ترین عمل ہے اور اس پر بھاری خرچہ آتا ہے۔اب جبکہ ایک بار پھر ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ سامنے آرہا ہے تو یہاں پر بڑاسوال یہ ہے کہ الیکٹورل اصطلاحات کے بغیر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن کیسے ممکن ہیں اس الیکشن کا کیا فائدہ کہ جس میں ہارنے والے دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگا کر اسے مسترد کر کے پھر سڑکوں پر نکل آئیں اس قسم کے رویوں کا اب یہ ملک مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔
اب کچھ تذکرہ روس یوکرین تنازعے اور اس کے حوالے سے چین کے کردار کا ہوجائے، جہاں روس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پابندیاں عائد کی ہیں تاہم چین نے اس تنازعے کے پر امن حل کا مطالبہ کرتے ہوئے اس میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور روس یوکرین تنازعے کے بعد حیرت انگیز طور پر چین اور روس کے درمیان تجارت میں اضافہ ہواہے۔چین کہتا ہے کہ وہ مغربی رہنماؤں کے مطالبے کے باوجود کہ اقتصادی پابندیوں کو کمزور نہ کیا جائے روس کے ساتھ اپنا نارمل تجارتی تعاون جاری رکھے گا۔چین کے کسٹمز ڈیٹا کے مطابق اس سال کی پہلی سہ ماہی میں روس کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا اور یہ گزشتہ سال سے 28 فیصد زیادہ ہوئی ہے۔ مارچ میں جب روس نے یوکرین پرحملہ کیا تو اس کے بعد چین اور روس کے درمیان گذشتہ سال کے مقابلے میں 12 فیصد تجارت میں اضافہ ہوا۔2021 میں روس کی مجموعی تجارت میں چین کا حصہ تقریبا ً18 فیصد ہے، جو کہ گزشتہ سال تقریبا 147 ارب ڈالر تھا۔فروری میں سرمائی کھیلوں کے دوران صدر پیوٹن کے دورہ بیجنگ میں دونوں ممالک نے کہا تھا کہ وہ 2024 تک تجارت کو 250 ارب ڈالر تک بڑھائیں گے تاہم کسی ایک بلاک کے حوالے سے یورپی اتحاد مجوعی طور پر روس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر رہا ہے۔
 چین روسی تیل، گیس اور کوئلے کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے۔یوکرین پر جارحیت سے ایک ہفتہ قبل ہی دونوں ممالک نے روسی کوئلے کا ایک نیا معاہدہ کیا تھا جو کہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ کا تھا۔صدر پیوٹن نے چین کے ساتھ تیل اور گیس کے نئے معاہدوں کی بھی نقاب کشائی کی تھی جو ایک اندازے کے مطابق تقریبا 117.5 ارب ڈالر کے تھے۔دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ ایک نئی گیس پائپ لائن بچھائی جائے جسے پاور آف سائبیریا ٹو کہا جا رہا ہے دوسری طرف روسی تیل اور گیس کی چین کو برآمدات گذشتہ پانچ برس سے سالانہ نو فیصد سے زیادہ کی شرح سے بڑھ رہی ہیں۔ یہ بہت تیز ترقی ہے۔روس اور چین کے تعلقات محض تجارت تک محدود نہیں ہیں بلکہ چین اپنی مسلح افواج کو جدید بنانے کیلئے روسی فوجی ہارڈ ویئر پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جو کہ 1989 کے تیاننمن سکوائر کریک ڈان کے نتیجے میں امریکی اور یورپی ہتھیاروں کی پابندیوں کے نفاذ کے باعث زیادہ ضروری ہو گیا تھا۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2017 اور 2021 کے درمیان چین کی کل اسلحے کی درآمدات کا تقریبا 80 فیصد روس سے تھا۔یہ چینی خریداری روس کی کل ہتھیاروں کی برآمدات کا 21 فیصد بنتی ہے، جو اس کا دوسرا سب سے بڑا عالمی صارف ہے لیکن چین آہستہ آہستہ اپنے فوجی سازو سامان بنانے کی صلاحیت بڑھا رہا ہے۔
 اب یہ دنیا کا چوتھا بڑا اسلحہ برآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔چین کا اسلحہ اب زیادہ جدید ہو رہا ہے خاص کر ڈرونز کی صنعت کافی ترقی یافتہ ہے اور امریکہ نے تو یہاں تک الزام لگایا ہے کہ روس چین سے ڈرونز خریدنے جا رہا ہے۔اقتصادی شعبے میں دونوں ملکوں میں مشترکہ کرنسی اور بینکنگ نظام پر بھی کام ہو رہا ہے۔چین اور روس دونوں نے حالیہ برسوں میں ادائیگی کے متبادل طریقوں کو استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔روس کے پاس مالیاتی پیغامات کی منتقلی کا نظام (ایس ٹی ایف ایم) ہے جبکہ چین کے پاس کراس بارڈر انٹربینک ادائیگی کا نظام (سی آئی پی ایس) ہے اور دونوں اپنی اپنی کرنسیوں میں کام کرتے ہیں لیکن سوئفٹ نے عالمی تجارتی نیٹ ورک میں مالیاتی لین دین پر غلبہ برقرار رکھا ہوا ہے۔روسی سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت روس اور چین کے درمیان تجارت میں صرف 17 فیصد چینی یوآن استعمال ہوتا ہے، جو 2014 میں 3.1 فیصد تھا۔دونوں ممالک کے درمیان توانائی کی تجارت اب بھی زیادہ تر امریکی ڈالر میں ہی ہوتی ہے لیکن ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ مارچ میں کئی چینی فرموں نے روسی کوئلہ اور تیل خریدنے کے لیے یوآن کا استعمال کیا۔چین گندم اور جو جیسے اناج کا ایک بڑا درآمد کنندہ ہے اور اس کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک روس ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے پروڈیوسر میں سے ایک ہے۔