عالمی یوم ارض (ورلڈ ارتھ ڈے) ہر سال ”بائیس اپریل“ کے دن منایا جاتا ہے تاکہ کرہئ ارض کو درپیش اُن مسائل پر بات چیت اور غور ہو سکے‘ جن کا تعلق درحقیقت ’اِنسان اور دیگر جانداروں کی بقا‘ سے ہے۔ آج کا انسان صرف اپنے حال کے بارے میں فکرمند نہیں رہا بلکہ اِسے مستقبل کے بارے میں بھی فکرمندی لاحق ہے کیونکہ اگر کرہئ ارض کا ماحولیاتی تنوع محفوظ نہیں بنایا جائے گا تو اِس سے ’آنے والی نسلیں‘ بھی محفوظ نہیں ہو سکیں گی۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی ’کرہئ ارض‘ کو بچانے کی کوششوں کا حصہ بنے اور ہر شخص انفرادی اور معاشرہ اجتماعی طور پر ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے کچھ نہ کچھ سعی کرے۔ ’اَرتھ ڈے‘ کے عنوان سے عالمی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کا بنیادی تصور اور مقصد اِس زاویہئ نگاہ کو بھی راسخ کرنا ہے کہ ہر انسان اپنے معمولات میں تبدیلی لا کر ’ماحول دوستی‘ کا عملاً ثبوت دے سکتا ہے۔پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو ہمارے فیصلہ سازوں نے کئی عالمی اداروں اور ممالک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور انسان کی اپنی بنائی ہوئی آفات سے بچنے کیلئے اقدامات پر اتفاق کیا ہے لیکن اِس سلسلے میں خاطرخواہ کردار ادا نہیں کیا گیا۔
مثال کے طور پر ہوا میں کثیف دھواں اُگلنے والی صنعتیں اور آبی و صوتی آلودگیوں میں اضافہ کرنے والے اسباب اپنی جگہ موجود ہیں اور ماحول دوست قانون و قواعد سازی بھی کر لی گئی ہے لیکن ماحول دوست عملی اقدامات دکھائی نہیں دیتے اور یہی امر ہمارے حکومتی اِداروں اور اِن اداروں کی فیصلہ سازی کرنے والوں کی غیرسنجیدگی کا مظہر ہے۔ رواں برس (دوہزاربائیس) کیلئے ”یوم ارض“ کا عنوان (موضوع) ”کرہئ ارض میں سرمایہ کاری“ رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ”کرہئ ارض کے ماحولیاتی تنوع کے باعث کئی جانداروں کا وجود ختم ہو چکا ہے اور انسان کے ہم زمین کئی جانداروں کا وجود خطرے سے دوچار ہے! اِس سلسلے میں اگر حکومتی ادارے خاطرخواہ کاروائی نہیں کر رہے تو عام آدمی (ہم عوام) کی بھی یکساں ذمہ داری (فرض) بنتا ہے کہ ہم پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی بجائے کپڑے کے بنے ہوئے تھیلے استعمال کریں اور اِس سلسلے میں چند دہائیوں قبل تک کی روایت موجود ہے۔
جب گھر سے پھل سبزی یا دیگر اجناس کی خریداری کیلئے جانے والے اپنے ساتھ کپڑے کا تھیلا لیجانا نہیں بھولتے تھے حتیٰ کہ تندور سے روٹی لانے والے دسترخوان لیجاتے تھے جو ایک ماحول دوست طرزعمل تھا لیکن رفتہ رفتہ اِس مثبت سرگرمی کی جگہ ”اِنتہائی خطرناک سہولت“ نے لے لی اور اگرچہ وقتی طور پر یہ سہولت فیشن بن چکی ہے کہ نہ صرف پلاسٹک میں بند کھانے پینے کی اشیا فروخت کی جاتی ہیں بلکہ پلاسٹک میں لپیٹ کر اور پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کر اشیاء دی جاتی ہیں اور اشیاء کو وصول کیا جاتا ہے اور یہ دونوں طرز عمل منفی (ماحول دشمن) ہیں۔ پاکستان ماحول دوستی میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے قابل تقلید مثالیں قائم کر سکتا ہے جسے دنیا سراہے گی۔
توجہ طلب ہے کہ اقوام متحدہ نے اِس بارے میں خبردار کر رکھا ہے کہ ”موسمیاتی تبدیلیاں‘ فطرت میں انسان کی بنائی ہوئی تبدیلیاں اور حیاتیاتی تنوع میں خلل ڈالنے کا باعث ہیں جو درحقیقت جرائم ہیں“ اور اگر اِن جرائم کی فہرست دیکھی جائے تو اِس میں جنگلات کی کٹائی‘ زمین کے زرعی استعمال میں تبدیلی‘ زراعت اور مویشیوں کی پیداوار میں اضافے کیلئے مصنوعی طریقوں کو اختیار کرنا‘ جنگلی حیات کی بڑھتی ہوئی غیر قانونی تجارت (خریدوفروخت) جیسے امور شامل ہیں جن کے باعث کرہئ ارض کی تباہی کی رفتار پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز دکھائی دیتی ہے۔