اقوام عالم کی آزمائش

توشہ خانے کا نام ہم اکثر سنتے ہیں اور اس حوالے سے آنے جانیوالے وزراء اعظم پر الزامات بھی لگائے جاتے ہیں جس سے عوام کے اذہان میں میں طرح طرح کے شکوک اور غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔  سیدھی بات یہ ہے کہ اگر بیرون ملک سرکاری دورہ کے دوران مہمان ملک کے سربراہان یا اعلی سطح کے بیوروکریٹس کو میزبان حکومت کی طرف سے کوئی قیمتی تحفہ ملے  تو وطن واپسی پر اسے ڈکلیئر کرنا ضروری ہے اور  پھر اسے سٹیٹ بینک کے توشہ خانے میں جمع کرنا بھی ضروری ہے چونکہ اس پر پہلا حق اس فرد کا ہوتا ہے کہ جسے یہ دیا گیا ہو لہٰذا حکومت ایک کمیٹی کے ذریعے اس کی مارکیٹ ویلیو متعین کرتی ہے اور اگر متعین شدہ قیمت کی چوتھائی رقم وہ فرد سرکاری خزانے میں جمع کر دے کہ جسے وہ ملا ہوتا ہے تو وہ یہ تحفہ گھر لے جا سکتا ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر حکومت اس تحفے کو نیلام عام کر کے کے اس سے حاصل ہونے والی رقم کو سرکاری خزانے میں جمع کر دیتی ہے۔
ا ب یہ الگ بات ہے کہ ان قواعد و ضوابط پر کس حد تک عمل درآمد ہوتاہے؟اب کچھ بین الاقوامی معاملات پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس وقت جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا فارمولا لاگو ہے، جس ملک میں طاقت ہے وہ مزید طاقتور ہوتا جارہا ہے اور پسماندہ وہ ترقی پذیر ممالک کی کوئی سننے والا نہیں۔ اس وقت اقوام عالم کو کئی طرح کے مسائل کاسامنا ہے تاہم طاقتور ممالک ان سے صرف نظر کرکے اپنے مقاصد کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک طرف صومالیہ میں قحط اور خشک سالی سے لوگ موت کی منہ میں جار ہے ہیں تو دوسری طرف سری لنکا کی حالت بہت پتلی ہوچکی ہے۔اب ان حالات میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو ایسے ممالک کی مدد کرکے ان کے مسائل حل کرے۔
 آئی ایم ایف او ر دیگر مالیاتی اداروں کے پاس بے پناہ وسائل ہیں تاہم ان کی مدد کے پیچھے پھر ایسی شرائط ہوتی ہیں کہ جس مسئلے کو حل کرنے کیلئے مد دکرتے ہیں اس سے بڑھ کر مسئلے پیدا کردیتے ہیں۔جہاں تک سری لنکا کی بات ہے تو معاشی بحران نے سری لنکا میں امیر اور غریب دونوں طبقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ عوام سڑکوں پر ہیں اور اقتدار میں موجود راجاپاکسے خاندان سے اقتدار اور سیاست چھوڑنے کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ کولمبو میں عوامی تاثرات جو دنیا بھر کے میڈیا میں رپورٹ ہوئے ان میں ایک شہری کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ پورا ملک تباہ ہوچکا ہے، کتے بھی ہم سے بہتر زندگی جی رہے ہیں، سب کچھ مہنگا ہے، گھر چلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ عام شہری پیٹرول کی عدم دستیابی، 13 گھنٹے بجلی کی بندش اور اشیائے ضروریہ کی ناقابلِ برداشت قیمتوں سے گھبرا چکا ہے،سری لنکا کی حکومت نے 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض پر ڈیفالٹ کا اعلان کردیا ہے اور قسطوں اور سود کی ادائیگی روک دی ہے۔ 
ایسے میں جب دنیا کے زیادہ تر ممالک معاشی مشکلات کا شکار ہیں، کورونا نے ان کو بے حال کردیا ہے، روس یوکرین جنگ نے حالات کو مزید ابتر بنادیا ہے۔اب اگر ان حالات میں بھی اقوام متحدہ کا ادارہ کسی کام کا نہیں تو پھر کس وقت وہ اپنا کردار ادا کریگا۔ نہ تو یہ سیاسی مسائل اور ممالک کے درمیان اختلافات حل کرسکتا ہے اور نہ ہی معاشی مشکلات میں یہ کسی مدد کے قابل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرے اور ان کو مزید بگڑنے سے روکے رکھے تاہم روس یوکرین تنازعے کی صورت میں اقوام متحدہ اپنا یہ کردارادا کرنے میں ناکام رہا۔