سری لنکا کی معیشت قرض ادائیگی اور درآمدات کی سکت نہ رکھنے کے باعث دیوالیہ ہو چکی ہے تو بنیادی سوال یہ ہے کہ سری لنکا اس حال تک کیسے پہنچا؟ لیکن اِس جواب تک پہنچنے سے قبل سری لنکا کی تاریخ سے آگاہی سودمند رہے گی۔ سری لنکا 1948ء میں آزاد ہوا۔ ملک کی تامل آبادی نے طویل عرصے تک بغاوت کی لیکن خانہ جنگی کے باوجود سری لنکا معاشی تباہی کی اِس اِنتہا تک نہیں پہنچا کہ یہ دیوالیہ ہوا ہو۔ نومبر 2019ء میں ”گوٹابایا راجا پاکسے“ نامی رہنما نے صدارتی انتخابات جیتنے کے فوری بعد منشور دیا جس میں ٹیکسوں کی شرح غیر معمولی طور پر کم رکھی گئی۔ ”گوٹابایا راجاپاکسے“ نے ٹیکس تقریباً نصف کرنے کا وعدہ کیا لیکن اِس اعلان سے قبل اُنہوں نے مرکزی بینک کو اعتماد میں نہیں لیا۔ ٹیکسوں کی شرح میں پچاس فیصد کمی کے فیصلے کے پیچھے ایک سادہ سی دلیل تھی کہ دوہزارنو میں خانہ جنگی کے خاتمہ کے بعد بھی ایسے ہی فیصلے نے ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا تھا لیکن قومی فیصلہ سازوں کو آنے والی مصیبت کا اندازہ نہیں تھا۔ کورونا وبا آئی تو سری لنکا جو کہ سیاحت پر انحصار کرنے والی معیشت ہے‘ بُری طرح متاثر ہوئی۔
ملک کی آمدن کم تھی اور اخراجات زیادہ‘ ٹیکس پہلے ہی نصف کر دیئے گئے تھے اس طرح دوہزاراُنیس میں جو قومی قرض واپس کرنے کی حکمت عملی (ڈیٹ مینجمنٹ پروگرام) بنایا گیا تھا وہ دھرا کا دھرا رہ گیا اور سری لنکا کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر ستر فیصد تک کم ہو کر دو برس میں صرف دو ارب چھتیس کروڑ ڈالر رہ گئے جبکہ رواں برس (دوہزاربائیس) میں اِسے چار ارب ڈالر کے قرض ادا کرنا تھے یعنی قرض زیادہ اور زرمبادلہ کے ذخائر کم تھے اور یہ کم ذخائر وقت کے ساتھ مزید کم ہوتے ایک ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے جس کے بعد سری لنکا کی حکومت نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ کورونا وبا کے سبب سیاحت کی صنعت تباہ ہونے اور روس یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل کی بڑھتی قیمتوں نے سری لنکن کو دیوالیہ پن تک پہنچایا جبکہ ملک میں بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات نایاب ہونا شروع ہو گئیں کیونکہ درآمدات رفتہ رفتہ کم ہو رہی تھیں۔
پیٹرول سٹیشنوں پر لمبی قطاروں اور ہجوم کو قابو میں رکھنے کیلئے فوج کھڑی ہے۔ قطاروں میں تیل اور اشیائے ضروریہ لینا پڑتا ہے اور اِس دھکم پیل میں کئی افراد دم گھٹنے سے مر چکے ہیں! ملک کے کئی حصوں میں کرفیو لگانا پڑا ہے اور سوشل میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا ہے۔سری لنکا کے دیوالیہ پن تک پہنچنے میں بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے مہنگے تیل نے سری لنکن معیشت پر تو بوجھ ڈالا ہی لیکن اس کے ساتھ اسی جنگ کی وجہ سے سری لنکن سیاحت بھی متاثر ہوئی۔ روس اور یوکرین کے شہری سری لنکا آنے والے غیر ملکیوں میں نمایاں ہیں۔ رواں سال کے پہلے دو ماہ میں روس سے اٹھائیس ہزار سیاح سری لنکا آئے جبکہ یوکرین سے آنے والوں کی تعداد تیرہ ہزار سے زیادہ تھی۔ جنگ کے بعد سیاحوں کی آمد رک گئی یوکرین جنگ نے سری لنکا کی چائے کی تجارت کو بھی متاثر کیا ہے۔ روس‘ سری لنکن چائے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ روس پر پابندیوں کی وجہ سے اس کی کرنسی مشکلات کا شکار ہے اور روس ڈالر میں ادائیگی نہیں کرسکتا۔ سری لنکا اپنی غذائی ضروریات کیلئے کسی حد تک خود کفیل ہے لیکن اجناس کی ترسیل اور اُن سے اشیا بنانے کی صنعت جو کہ روزگار کا ذریعہ بھی ہے بند پڑی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سری لنکا کے پاس برآمد کرنے کیلئے زرعی اجناس موجود ہیں لیکن اِس کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے فوری مالی امداد کی ضرورت ہے۔