چمن و باغ کی سیر

کسی سبزہ زار میں تھوڑی دیر جا کر بیٹھ جانے سے موڈ اچھا ہو جاتا ہے۔تفریحی مقامات چمن وغیرہ میں جایا جائے تو کہتے ہیں اُداسی دور ہوتی ہے۔سرسبز پارک ہو موسم شاندار ہو یہ ضروری تو ہے۔مگر دامن میں وقت کی تنگی بھی تو نہ ہو۔ فرصت بھی تو ہو۔ فراغت سے جائیں۔شاندار موسم میں سبزہ زار مل جائے اوراس پر فراغت بھی میسر ہو۔یہ خوش نصیبی ہے۔آج کل تو نصیب والوں کویہ چیزیں دستیاب ہیں۔کورونا کی وبا کے دوران میں چمن اور لان میں جا کر درختوں کے سائے تلے انجوائے کرنے کو بیماری سے شفایاب ہونے میں بہت فائدہ مند جانا گیا۔کیونکہ بندہ فطرت کے جتنا زیادہ قریب ہو اتنا اپنے آپ کوپُر شفا اور توانامحسوس کرتا ہے۔اس سے موڈ اچھا ہو جاتا ہے۔مگر پشوری میں کہتے ہیں ”دل کی بہار ہے یا باغ کی بہار“۔ظاہر ہے کہ باغ کی بہار تو دوسرے نمبر پر آتی ہے۔اگر اچھے موسم میں فطرت کی قرابت داری مہیا ہو تو کیا خوب ہے۔مگر جب گھر ہی سے موڈ خراب لے کر نکلے ہوں توکہیں بھی مزا نہیں آئے گا۔ کیونکہ باہر کی ترقی یافتہ اقوام کے اپنے مقولے محاورے اور اپنے سے نخرے ہیں۔سبزہ زار میں جا کر موڈ کو اچھا کرنا تو فیشن والی بات ہے۔
ہمارے ہاں کے لوگوں کے موڈہر وقت خراب رہتے ہیں۔ہمہ وقت جھلائے ہوئے رہتے ہیں۔لڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ کیونکہ انھیں سو پریشانیاں ہیں۔یہ خوشحال قوموں کے انداز ہیں کہ اگر ذرا موڈ آف ہوا تو باغ میں جاکر طبیعت کو رواں کر آئے۔ وہاں یہ باتیں زیب دیتی ہیں کہ فطرت کے قریب رہا جائے۔ مگر ہمارے ہاں تو اور حالت ہے۔یہاں تو دفتر میں جا کر صاحب کا اپنے سٹاف کے ساتھ موڈ خراب کرنا۔پھر بعد میں اپنے اکیلے کمرے میں خود کو کوسنا۔پھر خیال آناکہ میں ایسا کیوں کرتا ہوں۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ مجھے اپنے غصہ پر کنٹرول کرنا چاہئے۔مگر یاد آتا ہے کہ صبح آتے ہوئے خاتونِ خانہ کے ساتھ سرحدی جھڑپ ہوئی تھی۔ پھر وہ سوچتے ہیں یہی وہ اندرونی کہانی ہے جو اب سمجھ میں آئی ہے۔لیکن اس وقت پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔
صاحب اس وقت سٹاف کے بہت سے ممبران کوجھاڑ پلاچکے ہوتے ہیں۔ دل میں کہتے ہیں یہ آج مجھ کو کیاہوا۔ پھر یہی بات سٹاف والے بھی آپس میں دہراتے ہیں کہ یہ آج صاحب کو پھر کیا ہوا ہے۔وہ”پھر“ کے لفظ پر زور دے کرایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔خود صاحب کو بھی معلوم ہوجاتا ہے۔مگر بعد میں جان پاتے ہیں۔ان کواپنے غصے کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے۔مگر سٹاف والوں کو پہلے اندازہ ہوجاتا ہے کہ آج صاحب کے گھر میں شاید صبح دم لڑائی مارکٹائی سے بھرپور کوئی فلمی سین ہوا ہے۔دل کی بہار نہ ہو تو چمن کی بہار کا آدمی سے کیا کام۔ بھلے خوارو زار گھومیں اور جگہ جگہ ہریالی کو خوب انجوائے کرنے کی کوشش کریں۔یہ کوششِ ناتمام ہوگی اور ناکام ہوگی۔ ہم لوگوں میں اور باہر کی خوشحال قوموں میں یہی تو فرق ہے۔وہ اپنا موڈ اچھا کرنے کی غرض سے سرسبز پارکوں کا رخ کرتے ہیں۔مگر ہمارا موڈ اچھاہوتو ہم کسی پُر فضا مقام کو جائیں گے۔پشاور کے ہمارے جگری دوست عزیز اعجازکا مشہور ترین شعر ہے ”جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے۔
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے“۔جب موڈ ہی اچھا نہ ہو تو موسم کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو دل میں الجھن پیدا کرتا ہے۔دورنہ جائیں اپنامرزا غالب کا اسی مفہوم کاشعر ملاحظہ ہو”محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے۔کہ موجِ بُوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا“۔ہم لوگ تو غم اندوہ کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔کسی کو عشق کے غم نے ستا رکھاہے اور کسی کو روٹی پانی کی فکر کھائے جاتی ہے۔ہر ایک بیزار ہے۔کچھ تو مردم بیزار ہیں اورکچھ اپنی جان سے بیزار ہیں۔بلکہ غالب تو اپنے دکھ کو اتنا سرپہ چڑھا لیتے ہیں کہ اس غم کا جادو ان کے سر چڑھ کر اس طرح بولتا ہے گویا ان کی ذہن کی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوتی ہے۔ جب ایک آدمی غم سے نڈھال ہو او راس کو مشورہ دیں کہ جا کر باغ کی بہار دیکھو۔ وہ وہاں جائے بھی تو کیا۔وہاں کے پھولوں کی خوشبو کی وجہ سے اور پھولوں کے گودے اور اندرون دانوں کے کارن اس کو پولن الرجی ہو جائے ایسا بھی ممکن ہے۔
پھریوں کہ پھر عمر بھر بھی الٹا پھولوں سے دور ہی بھاگتا پھرے۔ اس لئے ہمارا موڈ تو اس وقت اچھا ہوگا کہ ہمارے گھر کا یا ہمارے اردگر دکا ماحول اچھا ہو۔گھر کا سکون نہ ہو تو باغ میں جا کر سکون کہاں ملتا ہے۔گھر میں اونچی آوازوں میں پانی پت کی لڑائیوں کی گذران ہو تو چمن وباغ میں جا کر وہاں کی خاموشی کہاں مزادیتی ہے۔بھلے وہاں کوئل کوکے اورپپیہا اپنی سی آواز میں گیت گاتے ہیں۔مگر ہمارے بھائی بند تووہاں جا کر گھر والوں کیلئے اور بھی خطر ناک ہو کر واپس آئیں گے۔ اسی لئے تو ہمارے ہاں ہمارے پارک ہمارے سبزہ زار یونہی ویران پڑے ہیں۔