عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”’پاکستان کے لئے توانائی کے شعبے میں سبسڈی بڑا چیلنج ہے۔“ سابق وزیرِاعظم نے بجلی کے بلوں میں فی یونٹ ’پانچ روپے‘ تک کمی کی اور ”عوام کیلئے تحفے“ کے طور پر بلوں پر تحریر بھی کیا گیا مگر یہ ریلیف اب نئی حکومت کیلئے گلے میں پھنسی ہڈی بن گیا ہے اور اس کو واپس لینا نئی حکومت کیلئے معیشت سے زیادہ سیاسی چیلنج ہے! پاکستان میں تو ایندھن کی قیمت کم کردی گئی مگر بین الاقوامی مارکیٹ میں ایندھن مہنگا ہوتا رہا۔ اس کی وجہ سے نئی اتحادی حکومت مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ اوگرا نے حکومت کو دو تجاویز (سمریاں) ارسال کی تھیں جس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت اکیاون روپے سے زائد اور دوسری سمری میں ایک سو اُنیس روپے فی لیٹر تک اضافے کی سفارش کی گئی۔ اوگرا کی پہلی تجویز میں جی ایس ٹی اور لیوی صفر سطح پر برقرار رکھتے ہوئے ڈیزل اکیاون روپے باون پیسے اور پیٹرول اکیس روپے تیس پیسے فی لیٹر تک مہنگا کرنے کی سفارش کی گئی جبکہ دوسری سمری میں ڈیزل ایک سو اُنیس روپے اٹھاسی پیسے اور پیٹرول تراسی روپے تیس پیسے فی لیٹر تک مہنگا کرنے کی سفارش کی گئی۔ اس اضافے میں پیٹرولیم لیوی تیس روپے اور جی ایس ٹی کو سترہ فیصد رکھا گیا تھا۔ مذکورہ اضافے کا فیصلہ نئی حکومت کیلئے
’سیاسی خودکشی‘ سے کم نہ تھا۔ اگر حکومت اضافہ نہیں کرتی تو اس سبسڈی کو ادا کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔ دوسری صورت میں حکومت کو مالیاتی خودکشی کا سامنا ہے تاہم فی الحال قیمتوں کو برقرار رکھنے کا ہی فیصلہ کیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اس طرح وفاقی بجٹ خسارے کا ہدف ساڑھے تین ہزار ارب سے بڑھ کر ساڑھے چار ہزار ارب تک جاسکتا ہے۔عالمی سطح پر ایندھن اور دیگر اجناس کے مہنگا ہونے سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافے کا سبب بنے گا جبکہ ملک کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے بڑے پیمانے پر زرِمبادلہ کی ضرورت ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا پانچ اعشاریہ چھ فیصد یا ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اگر ایندھن کی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے چار فیصد کی سطح تک آسکتا ہے۔ پہلے کورونا کے بعد عالمی معیشت کھلنے اور پھر روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کے علاؤہ دیگر اجناس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ سال غذائی اجناس کی قیمتوں میں تیئس اعشاریہ ایک فیصد کا اضافہ دیکھا گیا اور اس اضافے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ روس یوکرین جنگ کے وقت یعنی چوبیس فروری کو عالمی منڈی میں گندم اور مکئی ایک سو تیس ڈالر اور چاول ایک سو دس ڈالر کی سطح پر تھے جبکہ جنگ کے بعد گندم کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا
کیونکہ دنیا کی گندم کی برآمد میں سب سے بڑا حصہ روس اور یوکرین کا ہے۔ یوں گندم کی قیمت دوسو ڈالر کے قریب پہنچ گئی تھی۔ بعد ازاں گندم کی قیمت کم ہوکر ایک سو پچاس ڈالر آگئی ہے‘ چاول کی قیمت ایک سو تیس ڈالر اور مکئی ایک سو چالیس ڈالر کی سطح پر ہے۔ ان اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا عمل جاری رہے گا۔ چاول‘ مکئی اور گندم پاکستان کی بڑی فصلیں ہیں مگر سابقہ حکومت کے دور میں ملک میں آٹے کی قیمت بڑھنے اور ممکنہ قلت کی وجہ سے گندم بڑے پیمانے پر درآمد کی گئی ہے۔ گندم کے موجودہ سیزن میں زیادہ (بمپر) فصل کی توقع ہے اور عالمی سطح پر گندم کی مہنگائی سے پاکستان کو خلیجی ملکوں میں آٹے اور دیگر مصنوعات کو برآمد کرنے کے اچھے مواقع دیکھے جارہے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی معاشی شرح نمو میں کمی کا امکان ہے اور رواں سال پاکستان کی معاشی شرح نمو چار اعشاریہ تین فیصد تک رہے گی۔ ورلڈ بینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ مالی سال پاکستان کی شرح نمو پانچ اعشاریہ چھ فیصد رہی جبکہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان موجودہ مالی سال کے دوران چار اعشاریہ چار فیصد کی شرح سے ترقی کرے گا۔ پاکستان کی آبادی تقریباً تین فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اس وجہ سے معاشی شرح نمو معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ موجودہ حکومت کو معاشی شرح نمو چھ سے سات فیصد لے جانا ہوگی مگر مصنوعی نہیں بلکہ مستحکم بنیادوں پر۔ ایسا نہ ہو کہ ایک سال معاشی ترقی کے حوالے سے اچھا گزرے اور پھر بعد کئی سال اس اچھائی کے اثرات کو برداشت کرنے میں نکل جائیں!