پی ٹی آئی کی مقبولیت کاگراف؟

عمران خان کی حکومت ختم کئے جانے کے بعد ہونے والے پہلے ضمنی الیکشن میں عوام کا فیصلہ کپتان کے حق میں آ نے سے خیبر پختونخوا میں بالخصوص اور ملک بھرمیں بالعموم خان صاحب اور پی ٹی آئی کی مقبولیت کے حوالے سے ایک دلچسپ اور نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ اتوار کوہنگو سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 33 کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر ندیم خیال نے میدان مار لیاہے۔ دوسرے نمبر پر جمعیت علمائے اسلام کے امیدوارمفتی عبیداللہ رہے ہیں جب کہ تیسرے نمبر پر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار سعید عمرآئے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت ختم ہونے کے بعد عوام کی عدالت سے کوئی باضابط فیصلہ آیا ہے جسے پی ٹی آئی حلقوں کی جانب سے کپتان کے حق میں عوامی فیصلے سے تعبیر کیاجارہا ہے۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ خیبر پختونخو امحمود خان نے ہنگو ضمنی انتخابات میں کامیابی پر پارٹی امیدوار ندیم خیال اور کارکنان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضمنی انتخابات آنے والے عام انتخابات کی ایک جھلک ہیں،

آنے والے عام انتخابات میں بھی اپوزیشن جماعتوں کو بری طرح شکست ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ وہ عام انتخابات سے بھاگنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومت سے نکلنے کے بعد پی ٹی آئی اور خاص کر اسکے راہنما عمران خان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے یا پھر اسمیں اضافہ ہو ا ہے گو اس حوالے سے عمران خان کے حامیوں اور انکے مخالفین کی آرا ء میں واضح فرق بلکہ مخالفت پائی جاتی ہے لیکن غیر جانبدار ذرائع پشاور کے کامیاب جلسہ عام اور اب ہنگو کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی واضح جیت کے تناظر میں عمران خان کی کہی ہوئی اس بات کہ حکومت سے نکلنے کے بعد وہ زیادہ خطرناک ثابت ہونگے کسی حد تک درست معلوم ہو رہی ہے۔ تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ پشاور کا جلسہ عام پی ٹی آئی کی اپنی امریکہ مخالف مہم کی کامیابی کے حوالے سے ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ جلسہ کسی بھی وجہ سے ناکام ہو جاتا تو اس کا براہ راست اثر پی ٹی آئی کی جاری امریکہ مخالف تحریک حتیٰ کہ آئندہ عام انتخابات پر بھی اس کا لازماً اثر پڑنا تھا لیکن اب جب پی ٹی آئی پشاور سے اپنی احتجاجی تحریک کا بھر پور اور موثر آغاز کر چکی ہے تو اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اگر درمیان میں کوئی بڑا واقعہ وقوع پزیر نہ ہوا تو عمران خان حکومت سے نکلنے کے بعد واقعتا مقبولیت کی زیادہ بلندیوں پر چلے جائیں گے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کیلئے یہ بات سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہوگی کہ یہاں جب بھی کسی کو وقت سے پہلے اقتدار سے محروم ہو نا پڑا ہے اس سے اس نے فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگائی اور سیاسی فضا ء کو اپنے حق میں ہموارکرنے کیلئے ایسے کسی موقع کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ اس کی  مثال ذولفقارعلی بھٹو کی دی جا سکتی ہے، پہلی دفعہ وہ مقبولیت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب انھوں نے جنرل ایوب خان حکومت سے احتجاجاً کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور اسے چشم زدن میں مغربی پاکستان کی مقبول ترین جماعت بنادیا تھا۔بھٹو صاحب کی مقبولیت کادوسرا دور وہ تھا جب انہیں زبر دستی اقتدار سے نکال کر ملک میں مارشل لا ء نافذکیا گیا۔ اسی طرح ماضی میں جب بھی محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو اقتدار سے غیر فطری طور پر بے دخل کیا گیا تو وہ پہلے سے زیادہ پاپولر ہو کر سامنے آئے البتہ ان مثالوں سے قطع نظر عمران خان کی حکومت سے بے دخلی چونکہ ایک واضح آئینی طریق کار کے تحت عمل میں آئی ہے اس لئے انکی حکومت سے علیحدگی اور ان متذکرہ واقعات میں مختلف حکومتوں کے خاتمے میں بظاہر کوئی قدر مشترک نظر نہیں آتی لیکن عمران خان نے اقتدار سے محرومی کے تناظرمیں بیرونی مداخلت کا جو بیانیہ قوم کے سامنے رکھا ہے اسے بظاہر پذیرائی مل رہی ہے یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر آگے جاکر عمران خان کا بیرونی مداخلت کا بیانیہ غلط ثابت ہوتا ہے  تو پھر عمران خان اور پی ٹی آئی کیلئے کم از کم آئندہ انتخابات تک اپنی مقبولیت کا گراف برقرار رکھنا یقینا ایک بڑا اور مشکل چیلنج ہوگا ایسے میں وفاقی حکومت کے اقدامات بھی اہم کردار ادا کرینگے کہ عوام کو ریلیف دینے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کامیابی کے اثرات بھی براہ راست آنے والے انتخابات اور عوامی رائے کی تشکیل پر پڑ سکتے ہیں۔ یعنی اس وقت مقابلہ ایک طرح سے برابر جا رہا ہے۔