کسی کتاب کو کسی دھاگے کسی سٹیپل پِن نے یکجا کر رکھا ہوتا ہے۔اگر ان صفحات کے درمیان میں سے وہ دھاگہ وہ شیرازہ نکال لیا جائے۔پھر تمام کتاب ورق ورق ہو جاتی ہے۔اس کے صفحات بکھر کر ہواکے زور پر یہاں وہاں گر جاتے ہیں۔اسی طرح اس دور میں نچلے طبقہ کے فرد کی فکر پریشاں ہے۔کیا کر ے کیانہ کرے۔معاملہ اس کی سمجھ سے بالا تر ہوا جاتا ہے۔صورتِ حال اس کے کنٹرول سے نکلی جاتی ہے۔”پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے۔ جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے“۔ جیسے میر تقی میر نے کہا ”تیرے فراق میں جیسے خیال مفلس کا۔ گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری“۔مفلس کی فکر کیوں بکھری ہوئی نہ ہوگی۔ کیوں اس کی دانست پریشانی کا شکار نہ ہوگی۔ کیونکہ یہاں تو جتنی اس کی یومیہ آمدن ہے یا ماہانہ اجرت ہے۔وہاں اخراجات اس کے حساب سے دگنا ہیں۔کیا کرے بچوں کی سکول کی فیس ادا کرے یا بچوں کے کپڑے سلوائے۔بجلی کے بل اداکرے جس کے یونٹ ہر پندرہ دنوں کے بعد مہنگے ہو جاتے ہیں۔اوپر کی ہائی پاور کی تاروں میں بجلی ہو تو نیچے چھوٹی موٹی تاروں میں گھروں کی دیواروں کے اندر پلاسٹک کے پائپوں میں دوڑتی بھاگتی نظر آئے۔
پھر سوئی گیس کی طرح کہ نایاب ہوئی جاتی ہے استعمال نہ بھی ہو کہ ہو تو سہی مگر بلوں کے پھڑپھڑے گھر کے صدر دروازے کے اندر گرا دیئے جاتے ہیں۔کہنا پڑتا ہے ”اُداسیوں کا سبب کیا کہیں بجز اس کے۔یہ زندگی ہے پریشانیاں تو ہوتی ہیں“۔ پھراس شعر سے بھی دل کو ڈھارس ملتی ہے ”بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر۔ وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گذرے“۔لوئر کلاس کے شہری کیلئے زندگی اسی کا نام ہے۔معالج کی فیس کی ادائیگی گراں۔ سرکاری ہسپتال جایا جائے تو وہاں کوئی منہ نہ لگائے۔اگر نسخہ ہاتھ میں تھمائے تو دوا کہاں سے آئے۔ جائے میڈیسن سٹور پر قسمت آزمائے۔مگر ہائے نامراد واپس آئے۔ کیونکہ رقم کہاں سے آئے جو دارولے آئے۔مریض یونہی ایڑھیاں رگڑتے مر جائے مگر ان کو لاج نہ آئے۔وہ زیادہ کمائے اور چاہے کہ ایک اور گھر بنائے اور سرِ بازار وہیں یا کسی اور مارکیٹ میں ایک اوردکان سجائے۔مال ہتھیائے کھائے دوسروں سے چھپائے۔جب حالت یہ ہوتی جائے تو بندہ عاجز ہے کہاں جائے۔کس سے ماتھالگائے کوئی نہ سنے نہ توجہ دے پائے۔کیونکہ اس کو اپنی پڑی ہائے۔دکان سے ٹماٹر اٹھانا چاہے
مگر سوچ کر تین چار ٹماٹر خرید پائے۔گھر آئے تو شرمندہ و شرمسار ہو جائے۔اس کا جینا دشوار ہو جائے۔اس کو اس بازی میں جو اس نے کھیلی نہیں ہار ہوجائے۔سوئی گیس کے ٹھنڈے اور اس گرمی میں جس پر برف جمی ہو اس چولھے کو کہا ں سے جلائے۔ پائپوں میں گیس نہیں جیب میں پیسے نہیں کہ جائے اور سلینڈر میں گیس بھروائے او رآئے اس چولھے پر ہنڈیا چڑھائے۔ہنڈیا میں کیا ڈلوائے۔گھی ارزاں نہیں۔فی کس آمدن یومیہ اجرت کی کہانی بہت دردناک ہوئی جاتی ہے۔سفاک ہوئی جاتی ہے۔’زندگی ہے تو خزاں کے بھی گذر جائیں گے دن۔فصلِ گل جیتوں کو پھر اگلے برس آتی ہے“۔کوئی چیز کب پائیدار ہے اور باقی رہے گی۔ جو یہ بدقسمتی بقایا رہ جائے۔برے دن ہیں تو کیا ہوا اچھے دن بھی آ جائیں گے۔ ”خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک۔گذر ہی جائے گی یہ رُت بھی حوصلہ رکھنا“۔ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھنا لاحاصل ہے۔چلو آہستہ سہی مگر چلناشرط ہے ”سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے۔ہزار ہاشجرِ سایہ دار راہ میں ہے“۔قدم اٹھاؤ یہی زندگی ہے۔”چلو کہ منزل بلا رہی ہے“۔