عالمی بینک کی یہ وارننگ کافی تشویشناک ہے کہ پاکستانی معیشت کو سخت خطرات کا سامنا ہے اور یہ کہ قرضوں کی ادائیگی یقینی بنانے کیلئے مالیاتی خسارہ کم کرنا ہوگا۔ موجودہ مالی سال میں شرح نمو 9.4 تھی جبکہ اگلے سال چار فیصد رہنے کی توقع ہے پاکستان کی معاشی صورتحال پر عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو بڑے خطرات کا سامنا ہونے والاہے۔ رپورٹ میں عالمی منڈی میں تیل اور اجناس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کورونا کی نئی لہر سے نقل وحمل پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کی کمر اگر چہ توڑ دی گئی ہے تاہم پھر بھی اکا دکا واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گرد کسی نہ کسی طرح افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ملک میں غیر ملکیوں کے داخلے کا نظام فول پروف ہونا چاہئے۔
بالکل اسی طرح پاکستان میں داخلے کیلئے سخت ویزا سسٹم بنانا ہو گا کہ جس طرح امریکہ یا برطانیہ نے بنا رکھا ہے۔ جب تک ہم بارڈر کنٹرول کو موثر نہیں کرتے ہمارے دشمن کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کے اندد دہشت گرد بھیجتے رہیں گے۔اب کچھ تذکرہ عالمی منظر نامے پر جہاں چین اور جزائر سولومن میں معاہدے سے ہند بحرالکاہل میں امریکہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔چین اور جزائر سولومن کے مابین ہونے والے سکیورٹی معاہدے پر امریکہ، جاپان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس سے آسٹریلیا کے پاس بحر الکاہل کے جزائر میں سے ایک پر چینی اثر و رسوخ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکہ، جاپان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے چین اور جزائر سولومن کے درمیان ہونے والے نئے سیکورٹی معاہدے پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی ہے۔امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرینی واٹسن نے کہا کہ چاروں ممالک کے حکام نے جزائر سولومن اور عوامی جمہوریہ چین کے درمیان مجوزہ سیکورٹی فریم ورک پر تشویش کا اظہار کیا،چین نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ اس نے جزائر سولومن کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، حالانکہ جنوبی بحرالکاہل کے جزائر کے حکام نے ابتدائی طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ابھی دستخط ہونا باقی ہیں۔
پارلیمنٹ کی پبلک اکانٹس کمیٹی کے چیئرمین ڈگلس ایٹے نے کہا تھا کہ چینی حکام تعاون کے معاہدوں پر دستخط کرنے کیلئے اگلے ماہ آئیں گے۔ وزیر اعظم مناسی سوگاورے نے یہ بھی کہا تھا کہ چین کے ساتھ سیکورٹی معاہدے میں کوئی فوجی اڈہ شامل نہیں ہو گا اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ معاہدے تجارت، تعلیم اور ماہی گیری جیسے امور کیلئے تعاون پر مرکوز ہوں گے۔تیزی سے بدلتی صورتحال کے تناظر میں، امریکہ نے جزائر سولومن کے دارالحکومت ہونارا کیلئے اسی ہفتے ایک اعلی سطحی وفد بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وفد کی قیادت قومی سلامتی کونسل اور ہندبحرالکاہل کے کوآرڈینیٹر کرٹ کیمبل اور مشرقی ایشیائی اور بحرالکاہل کے امور کے ا سسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈینیئل کرٹن برنک کر رہے ہیں۔دوسری طرف آسٹریلوی حکام نے نئے سیکورٹی معاہدے کی روشنی میں آسٹریلیا کے ساحلوں سے 2,000 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر چینی افواج کی ممکنہ موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ ماریس پینے نے کہا کہ آسٹریلیا اس سے شدید طور پر مایوس ہے اور چین کی طرف سے دستخط کے اعلان کے بعد اب معاہدے کی شرائط کی تفصیلات جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔دریں اثنا، حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے اس اعلان کو گزشتہ تقریبا 80 برسوں کے دوران بحرالکاہل خطے میں آسٹریلوی خارجہ پالیسی کی بدترین ناکامی قرار دیا، اور اس کا الزام وزیر اعظم سکاٹ موریسن پر عائد کیا۔