سکورکارڈ: سرمایہ دارانہ نظام

حقائق سامنے آئے ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ امیر لوگوں کا تعلق امریکہ سے ہے اور اِس نتیجہئ خیال کی روشنی میں دوسرا سوال یہ پیش کیا گیا ہے کہ امریکہ کا امیر ترین طبقہ کتنا امیر ہے؟ ’فوربز‘ نامی کاروباری تحقیقی ادارے نے اپنی حالیہ اشاعت میں دنیا کے 400 امیر ترین افراد کی فہرست مرتب کی ہے جس میں صرف کھرب اور ارب پتی افراد کو شامل کیا جاتا ہے اور ’سکور کارڈ‘ کے مطابق امریکیوں کا غلبہ ہے لیکن دولت سے متعلق عالمی سطح پر پائے جانے والے اعداد و شمار یہیں ختم نہیں ہوتے۔ ”بلوم برگ“ نامی کاروباری نامہ نگاروں کا ایک گروپ بھی ”ارب پتی جدول(انڈیکس)“ شائع کیا ہے اور اِس فہرست کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے دس امیر ترین ارب پتی افراد میں سے آٹھ کے پاس امریکی پاسپورٹ ہیں اور اِن آٹھ افراد کے پاس مجموعی طور پر 1.22 کھرب ڈالر مالیت کے اثاثے ہیں۔ 
تشویشناک بات یہ ہے کہ آخری مرتبہ ’فوربز‘ کی جانب سے جاری ہونے والی فہرست میں مذکورہ آٹھ امریکیوں کے پاس مجموعی طور پر 4.5 کھرب ڈالر تھے لیکن کورونا وبا کی وجہ سے جب دنیا معاشی بدحالی سے دوچار ہوئی اور معاشی سست روی کی وجہ سے اب بھی پاکستان جیسے ممالک معاشی بحران سے گزر رہے ہیں۔ دنیا کے سرمایہ داروں میں امریکیوں کے تناسب سے ایک اور بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک عام امریکی کو ارب پتی بننے کیلئے اوسطاً پچیس سال محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ بات ’پروپبلکا‘ نامی تنظیم کے رکن صحافیوں نے پیش کی ہے جس کیلئے ہزاروں امیر ترین لوگوں کے ٹیکس گوشوارے اور حکومتی ادارے (انٹرنل ریونیو سروس) کے اعداد و شمار سے استفادہ کیا گیا ہے۔ امریکہ کے امیر ترین لوگوں سے متعلق سطحی تجزیئے سے پتہ چلا ہے کہ امریکہ میں ٹیکس ادائیگی کا نظام اِنتہائی فعال اور مضبوط ہے اور وہاں کسی بھی شخص کی مالی حیثیت کے بارے میں اندازوں سے نہیں بلکہ درست ترین اعدادوشمار سے رائے قائم کی جاتی ہے۔ 
امریکہ کے سرمایہ دار اگر پوری دنیا کے وسائل سے استفادہ کر رہے ہیں اور اُن کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے تو اِس کی بنیادی وجہ وہاں ٹیکس ادائیگی کا فعال و مربوط نظام ہے جس کی وجہ سے امریکہ کی حکومت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عملی جامہ پہناتی ہیں‘ہر امریکی اوسطاً 29 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پاکستان کی ملازمت پیشہ نصف آبادی 76 ہزار 900 جبکہ باقی اِس سے کم ماہانہ آمدنی پر گزربسر کرتی ہے اور یہی طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے جبکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ملک کے سرمایہ دار حسب آمدنی اور حسب آسائش ٹیکس ادا کریں اور عام آدمی پر بلواسطہ اور بلاواسطہ عائد ٹیکسوں کی شرح کم کی جائے‘ یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جہاں حکومتی اعدادوشمار پر انحصار کرنے کی بجائے اُن زمینی حقائق کو دیکھا جائے جس میں سرمایہ داروں کے اثاثوں میں ہر دن اِضافہ ہو رہا ہے جبکہ مہنگائی و دیگر محرکات کی وجہ سے غربت بڑھ رہی ہے اور یہی غریب لوگ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ موبائل فون کے ہر ریچارج سے لیکر عمومی و بنیادی استعمال کی اشیائے خوردونوش پر عائد ٹیکسوں کی مد میں ادا کر رہے ہیں لیکن نہ تو اُن کے کردار کو سراہا جاتا ہے اور نہ ہی آمدنی کے تناسب سے زیادہ شرح ٹیکس ادا کرنے والوں کو خاطرخواہ سہولیات میسر ہیں‘ جو سراسر ناانصافی ہے۔