مزدور کی ماہانہ اجرت پچیس ہزار کردی گئی ہے۔نئی حکومت کا یہ اعلان ہزار طرح قابلِ تعریف ہے۔ کیونکہ اس پہلے مزدور کا محنتانہ بہت کم تھا۔ ہر دور میں صدر وزیر اعظم نے یہ کوشش کی کہ مزدور کی تنخواہ بڑھائی جائے۔مگر یہ شکایتیں بھی آرہی ہیں کہ یہ ماہانہ اجرت صرف کاغذی کاروائی کی حد تک محدود ہے۔یہاں تو مل مالک کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم معاوضہ دے کر مزدور سے زیادہ کام لے۔ دیہاڑی دار مزدور طبقہ بیچارہ مجبور و مقہور ہوتا ہے۔پھر مزدوروں میں خواتین بھی تو ہیں۔ جو مرد مزدور وں سے زیادہ مجبوری کی زندگی گذارتی ہیں۔جو بہت ہی مجبوری کی حالت میں گھر سے نکلتی ہیں آج کل گھر کا چولھا جلانا کتنا مشکل کام ہو چکاہے۔اس لئے مزدورخواتین اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے کم سے کم اجرت پر کام کرتی ہیں۔مزدوری ہر طرح کی ہے۔ کسی کارخانے میں جا کر وہاں کام کرنا یا وہاں کا کام لے کر گھر آنااور ٹافیوں کو رنگین کاغذوں میں بند کرنا۔ اس طرح کے سینکڑوں کام ہیں جو مزدور خواتین انجام دیتی ہے۔
ایسے موقع پر کارخانے کامالک کم پیسے دے کر زیادہ کام نکلواتا ہے۔مرد تو ایک جگہ اگر معاوضہ کم ملا تو دوسری جگہ چلا جائے گا۔مگر خواتین چاہتی ہیں کہ وہ گھر کے نزدیک کسی فرم میں ملازمت کریں۔وہ زیادہ مجبور ہوتی ہے۔ اب وہ کم پیسوں کی تیا رنوکری چھوڑ کر دور دراز جا کر کام کرنے کو کیا خوار ہوں گی۔مگر پانچوں انگلیاں برابر نہیں۔ بعض مالکان خوفِ خدا سے اپنا سر نیچے رکھتے ہیں۔ وہ مزدورکو نہ صرف اس کاحق دیتے ہیں بلکہ پاس سے جو کچھ ہو سکتا ہے اضافی طور پر بھی اس کو دیتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی مالکان کی وجہ سے ڈھیر سارے مزدروں کا بھلا ہورہاہے،مزدوروں کی تنخواہ اگر پچیس ہزار کر دی گئی ہے تو کمال نہیں کمال یہ کہ اس پر پابندی سے عمل کروایا جائے۔کیونکہ یہ سرکاری تنخواہ تو نہیں یا کسی پرائیویٹ ادارے کی ماہانہ آمدن ہو۔جو لگی بندھی ہے مگر ہرماہ بینک اکاؤنٹ کے ذریعے جیب میں آ جاتی ہے۔ بھلا ہو ان کا جومزدوروں کو ٹِپ دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے مزدور کا گذارہ ہو جاتا ہے۔
آٹھ کروڑ کے قریب مزدور ہیں جو ارضِ وطن میں روزانہ کی اجرت پرکام کررہے ہیں۔جن میں ہر شعبہ ئ زندگی سے جڑے ہوئے مزدور شامل ہیں۔ہوٹل کارخانے زراعت جنگلات او رگالف کا گیم کھیلنے والے بڑے لوگوں کے مزدور جو ان کے ساتھ ان کی کٹ اٹھا کر چلتے ہیں۔جس میں سٹک وغیرہ پڑی ہوتی ہیں۔ٹرانسپورٹ ماہی گیر وغیرہ کے مزدورسب شامل ہیں۔یہاں تو پانچ سو روپے یومیہ اجرت دیتے ہیں۔ پھر اتوار یا جمعہ کی چار چھٹیوں کے پیسے نکال لیں گے۔پھر اگر مزدور کی طبیعت ناساز ہے تو وہ چھٹی کرے گا۔مہینے میں دو ایک دن تو اس کھاتے میں بھی اس کا معاوضہ کم ہوجائے گا۔یوں اس کو بارہ ہزار ہاتھ آئیں گے۔ا س پر ستم یہ کہ بجائے آٹھ گھنٹے کام کے اس سے بارہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔
آج کل بہت ہوا تو کوئی سات سو دیہاڑی دیتا ہے یا پھر آٹھ سوروپے روز ہوتے ہیں۔مگرسرکار کی طرف سے مقررہ ساڑھے آٹھ سو روپے کون دیتا ہے۔ اس ضمن میں ہم سے ہر فرد پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ مزدور کی ضرورت ہم سب کو بھی کسی نہ کسی موقع پر پیش آتی ہے اور دیکھا گیا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کوشش ہوتی ہے کہ مزدور کی مزدوری میں کمی کرکے بچت کرے۔ بعضمواقع پر اتنی تاخیر سے مزدوری دی جاتی یہ کہ اسے حاصل کرنے کیلئے آنے جانے پر مزدور بیچارے کے ڈھیر سارے پیسے خرچ ہوجاتے ہیں۔ یعنی مزدور کی اجرت کے حوالے سے ہم سب نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ تب ہی حقیقی معنوں میں حالات بدلیں گے۔