وقت کا تقاضا

اس وقت دنیا بھر میں انتشار ہی انتشار دکھائی دے رہا ہے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے لے کر چند  سال قبل تک دنیا  میں دو بڑے بڑے ہاتھیوں کی جنگ میں یعنی  سوویت یونین اور امریکہ کی آپس  میں چپقلش کی وجہ سے دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا خطہ بچا تھا کہ جس پر  ان دو ہاتھیوں کی جنگ کے منفی اثرات نہ پڑے ہوں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد بعد دنیا  کی سیاسی صورت حال صرف اس حد تک بدلی  ہے کہ ایک طرف اگر آج ماضی کی طرح ہی  امریکہ  نے یورپ اور مشرق بعید کے کچھ ممالک کو اپنے ساتھ ملا کر ایک مضبوط سیاسی اور عسکری گروپ بنا لیا ہے تو دوسری جانب اب روس امریکہ کے مقابلے میں اکیلا نہیں رہا۔ اس کے ساتھ شانے سے شانہ ملا کر چین بھی آ کھڑا ہوا ہے ان دونوں ممالک کی قیادت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایک اکیلا ملک امریکہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا پر اگر  ایک اور ایک مل جائیں تو وہ گیارہ ہو جاتے ہیں اور یہ کہ ان دونوں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ امریکہ کی قیادت میں جن ممالک کا بلاک بنا ہے اس کا مقابلہ مل کر کریں پاکستان کا مفاد اس بات میں کہ وہ چین اور روس کے ساتھ قریبی سٹریٹیجک تعلقات کو برقرار رکھے پراس کا البتہ یہ مطلب بالکل  نہیں ہونا چاہئے۔کہ ہم امریکہ یا اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں بگاڑ پیدا کر دیں ہمیں البتہ خارجی امور میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا اور ماضی کی طرح کسی بھی ایسے معاہدے کا حصہ بننے سے اجتناب کرنا ہوگا کہ جس سے چین اور روس کے کسی مفاد پر زک پڑے۔ بقول کسے امریکہ کی نہ دوستی اچھی ہے اور نہ دشمنی۔ اب کچھ تذکرہ ملک میں توانائی بحران کا ہو جائے  جہاں بجلی کا بحران شدید ہوگیا ہے اور گرمی میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ اپریل میں ہی ملک میں بجلی کا بحران پیدا ہوگیاصوبہ خیبر پختونخوا میں بھی لوڈ شیڈنگ زوروں پر ہے اور یہاں بھی بجلی بندش سے معمولا ت زندگی متاثر ہونے لگے ہیں۔ادھر بلوچستان میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال ہے جہاں کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں بجلی کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے عوام پریشان ہیں، کوئٹہ شہر میں 6 سے 7 گھنٹے اور مضافات میں 12 سے 13 گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ صوبہ سندھ میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے‘ دوسری جانب وزارت توانائی کے ذرائع کے مطابق  ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار 15 ہزار اور طلب 21 ہزار 500 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے اور ملک میں اس وقت بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے، جس کی وجہ سے اس وقت ملک بھر میں 10 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے سچ تو یہ ہے کہ توانائی بحران کوئی نئی بات نہیں اور ہر سال انہی دنوں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو مسئلہ مسلسل درپیش ہے اس کا حل موثر منصوبہ بندی سے ڈھونڈا جائے تاہم بد قسمتی سے پانی کی فراوانی کے باوجود پانی سے بجلی پیدا کرنے کے میگا پراجیکٹ طویل عرصے سے سامنے نہیں آرہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے دیگر ممالک میں بننے والے ڈیموں کی تعداد حیرت انگیز طور پر زیادہ ہے۔اب پچھلی حکومت میں جو کئی منصوبوں کا آغاز ہوچکا ہے تو ضروری یہ کہ ان پر تسلسل کے ساتھ تیز کام ہو تاکہ ریکارڈ عرصے میں ان کی تکمیل سے توانائی بحران کو ٹالا جا سکے۔ وزیر اعظم شہباز شریف ایک اچھے منتظم ہیں امید ہے کہ وہ طرف بھر پور توجہ دے کر اس سمت میں تیزی سے قدم اٹھائیں گے اور جو منصوبے پچھلی حکومت میں شروع ہوئے ہیں ان پر کام تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا۔