ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت نے مائع گیس (ایل این جی) کی درآمد کیلئے دو تجارتی کمپنیوں (ای این آئی اور گنور) سے کئے گئے اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے پر ”لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن“ سے رجوع کیا ہے پاکستان میں گیس بحران ہر دن شدت اختیار کر رہا ہے اور تفصیلات کے مطابق مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے ’یکم مئی‘ کو ”ایل این جی کارگو“ فراہم کرنے سے معذرت کی وجہ سے گیس کی کمی سے پیدا ہونے والا بحران مزید بڑھ جائے گا۔ اِس کا مطلب ہے کہ اہل پاکستان کو اِس مرتبہ عیدالفطر پر ایندھن کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے صرف باورچی خانے ہی نہیں بلکہ سی این جی پر چلنے والی گاڑیاں بھی متاثر ہوں گی اور متبادل ایندھن (پیٹرول و ڈیزل) استعمال کرنے والی گاڑیوں کا سفر بھی باکفایت نہیں رہے گا۔ گزشتہ روز (اکیس اپریل) وفاقی حکومت کی جانب ’عالمی مالیاتی ادارے‘ سے ہوئے مذاکرات کی تفصیلات جاری کی گئیں جن کے مطابق ’آئی ایم ایف‘ نے مزید قرض دینے کیلئے 1300 ارب ڈالر کی سبسڈی ختم کرنے کی شرط رکھی ہے اور حکومت کی جانب سے دبے الفاظ میں قوم کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ آنے والے چند دنوں کے دوران (یقینا عید الفطر سے قبل) پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے گا اور یہ فی لیٹر اضافہ غیرمعمولی طور پر زیادہ اور شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ ہوگا یا اِس کے بعد ملکی تاریخ میں پیٹرولیم بلند ترین سطح پر پہنچ جائیں گی۔موجودہ گیس بحران کا ایک پہلو تکنیکی بھی ہے‘ جس میں فیصلہ سازی کے مراحل میں خرابیوں اور کوتاہیوں شامل ہیں۔ گیس فراہمی سے انکار کرنے والی دونوں کمپنیاں دائمی نادہندگان بن چکی ہیں اور دو سال کے وقفے میں انہوں نے گیارہ بار پاکستان سے کئے گئے گیس فراہمی کے اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان گیس بحران کا سامنا کر رہا ہے حالانکہ عالمی منڈی کے حالات ایسے خراب نہیں ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے جن کمپنیوں سے معاہدہ کیا اُن کا ماضی اور کارکردگی نہیں دیکھی گئی جیسا کہ سنگاپور کی گنور نامی کمپنی نے سات بار اور اٹلی میں قائم ای این آئی نے چار بار سے زائد گیس فراہمی سے معذرت کی۔ ان حالات نے وزارت ِتوانائی کو پریشان کر رکھا ہے کہ پہلے تو صرف موسم سرما میں گیس کی طلب بڑھ جانے سے بحران آتا تھا لیکن اِس مرتبہ موسم گرما میں گیس بحران پیدا ہوا ہے جس کے فوری حل ہونے کی اُمید (آثار) بھی نہیں اور اِس سے آنے والے موسم سرما کے دوران پیش آنے والی صورتحال کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے۔ پاکستان کو گیس صرف گھریلو اور صنعتی صارفین ہی کیلئے نہیں بلکہ بجلی کے پیداواری یونٹس کیلئے بھی چاہئے ہوتی ہے اور گیس بحران سے بجلی کی پیداوار متاثر نہ ہو‘ اِس مقصد کیلئے وفاقی حکومت نے چھ ’ایل این جی کارگوز‘ درآمد کرنے کیلئے بولیاں مانگ لیں ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ مصنوعی گیس بحران تخلیق کر کے ’ای این آئی‘ اور ’گنور‘ نامی کمپنیوں نے بحرانی صورتحال سے زیادہ مالی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے اور یہ ایسا کرنے کے عادی ہیں جو جان بوجھ کر نادہندہ بن جاتے ہیں تاکہ پاکستان کیلئے ”حسب معاہدہ گیس کی فراہمی (ٹرم کارگوز)“ کو بین الاقوامی منڈیوں کی طرف موڑ کر زیادہ منافع کمایا جا سکے جب ایل این جی کی قیمتیں پچیس سے بتیس ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے زیادہ بڑھ گئیں تو اِن کمپنیوں نے گیس فراہمی سے انکار کر دیا لیکن جب عالمی منڈی میں ایل این جی کی قیمتیں کم ہوجائیں گی تو یہ دونوں کمپنیاں دوبارہ ایل این جی پاکستان کو مہنگی قیمت پر فراہم کرنا شروع کر دیں گی۔ معاہدے کی رو سے پاکستان مذکورہ دونوں کمپنیوں کو کارگو کی مجموعی لاگت کا زیادہ سے زیادہ تیس فیصد تک جرمانہ کر سکتا ہے جس کی ادائیگی دونوں کمپنیاں کرنے کیلئے تیار ہیں کیونکہ اِس طرح جرمانہ ادا کر کے بھی اُنہیں خسارہ نہیں اور پاکستان کو زیادہ مہنگی گیس خریدنا پڑے گی۔ پاکستان کی ضرورت 1200 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جبکہ اِس طلب کے مقابلے 800 ایم ایم سی ایف ڈی درآمد ہو رہی ہے جس کا منفی اثر اُن صنعتوں کی پیداواری صلاحیت کم ہونے کی صورت سامنے آ رہی ہے جو برآمد کرنے والا سازوسامان تیار کرتی ہیں اور حکومت نے ایسی صنعتوں کو پچاس فیصد گیس فراہمی روک دی ہے۔ اِسی طرح بجلی کے پیداواری شعبے کو 690 ایم ایم سی ایف ڈی گیس چاہئے لیکن اِسے 500 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جا رہی ہے اِسی طرح سی این جی اور پاور پلانٹس کو گیس فراہمی کم کرنے اور گرمی کی شدت بڑھنے سے آئندہ ماہ (مئی دوہزاربائیس) بجلی کے شعبے کی طلب بڑھ کر 800 ایم ایم سی ایف ڈی ہو جائے گی لہٰذا صارفین کو موسم گرما کی شدت کے ساتھ بجلی کا طویل تعطل برداشت کیلئے بھی ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔