فرانس کے صدارتی انتخابات کے دوسرے اور حتمی مرحلے میں اتوار 24 اپریل کو ووٹنگ ہوگی اور ملک کے 48.7 ملین رائے دہندگان موجودہ صدر ایمانوئیل میکرون اور ان کی حریف میرین لی پین میں سے کسی ایک کو صدر منتخب کریں گے۔دس اپریل کو انتخابات کے پہلے مرحلے میں بارہ امیدواروں کا مقابلہ تھا مگر کوئی امیدوار کامیابی کیلئے درکار پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکا۔ صدر میکرون کو 27.8 فیصد، انتہاء دائیں بازو کی جماعت نیشنل اسمبلی پارٹی کی میرین لی پین کو 23.1 فیصد جبکہ انتہائی بائیں بازو کے جین لک میلنشو کو 22 فیصد ووٹ مل پائے۔ فرانس کے قانون کے مطابق اول و دوم آنے والے امیدواروں کا اب اتوار کو دوسرے مرحلے میں مقابلہ ہوگا۔ 2017 کے صدارتی انتخابات میں صدر میکروں لی پین کو آسانی سے دوسرے مرحلے میں ہراچکے ہیں مگر اس بار مقابلہ سخت ہے۔ میکرون دوبارہ منتخب ہونے والے پہلے صدر بننا چاہتے ہیں جبکہ لی پین 2012 میں صدارتی انتخابات میں تیسرے نمبر پر آئی تھی اور 2017 میں بھی اور اس سال بھی وہ دوسرے نمبر پر آئیں۔ 2017 کے مقابلے میں اس بار لی پین کی پوزیشن مستحکم ہے۔ میکرون کو سابقہ صدور، کھیلوں اور شوبز کے ستاروں کی حمایت مل چکی ہے جبکہ پہلے مرحلے میں پیچھے رہ جانے والے بعض امیدواروں نے میکرون اور بعض نے لی پین کی تائید کی ہے۔ رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے مطابق میکرون کی عوامی حمایت 55 فیصد ہوگئی ہے مگر اس سے پہلے ایگزٹ پولز کے مطابق میکروں کو 51 سے 52 فیصد جب کہ لی پین کو 48 سے 49 فیصد ووٹ ملنے کی توقع ظاہر کی گئی تھی۔ انتہائی بائیں بازو کے تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار جین لک میلینشو نے اپنے پیرکاروں کو کہا ہے کہ آپ کا ایک ووٹ بھی انتہاء دائیں بازو یعنی لی پین کو نہ پڑے مگر میکرون کی حمایت بھی نہ کریں۔ مگر امکان ظاہر کیا رہا ہے کہ لی پین کی محنت کش طبقے میں مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بائیں بازو کے زیادہ تر ووٹ لی پین کو مل پائیں گے۔ اندازہ ہے کہ میلینشو کے 33 فیصد حمایتی میکرون اور 23 فیصد لی پین کے حق میں ووٹ ڈالیں گے جبکہ 44 فیصد ووٹ غیر جانبدار رہیں گے۔انتہائی دائیں بازو کے سفید فام نسل پرست، روس نواز اور نیٹو، یورپی یونین اور مہاجرین مخالف ایرک زیمور، جو پہلے مرحلے میں چوتھے نمبر پر آئے ہیں، کے حامیوں بارے اندازہ ہے کہ ان کی 80 فیصد دوسرے مرحلے میں میرین لی پین کو ووٹ دیں گے۔اس حالت میں کہ رائے دہندگان بوجوہ منقسم اور متذبذب ہیں، انتخابات وہ امیدوار جیت سکتا ہے جو اپنے حامیوں کے سوا ان رائے دہندگان کو اپنی طرف راغب کرلیں جنہوں نے پہلے مرحلے میں بقیہ امیدواروں کو ووٹ دئیے تھے۔ مبصرین کے مطابق میکرون اور لی پین میں سے جس کو تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر آنے والے ایک یا دو امیدواروں کی حمایت مل جائے گی وہ فرانس کا آئندہ صدر بن جائے گا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں فرانس میں انتہائی دائیں بازو کا سیاسی دائرہ وسیع ہوا ہے۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں زیادہ تر دائیں بازو کی جماعتوں کو پذیرائی ملی۔ بائیں بازو کے ایک امیدوار میلنشو کو بائیں فیصد ووٹ ملے جبکہ دوسری بائیں بازو کی پارٹی دسویں نمبر پر آئی اور صرف 1.7 فیصد ووٹ لے سکی۔ معتدل دائیں بازو اور بائیں بازو کی جماعتیں اور تنظیمیں لی پین کے مقابلے میں میکرون کی حمایت کررہی ہیں مگر ان کی حمایت میکرون کی گزشتہ پانچ سالوں کی کارکردگی، وعدوں اور مستقبل کے منصوبوں کی توثیق نہیں ہے بلکہ لی پین سے خوف کی وجہ سے ہے۔صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کی شرح 26.5 فیصد تھی جو 2017 سے تقریبا ستر فیصد کم تھی۔ اندازہ ہے کہ دوسرے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں اضافہ ہوجائے گا۔ صدارتی انتخابات کے ابتداء نتائج کے اعلان کے بعد فرانس میں مختلف مقامات پر پرتشدد مظاہرے بھی ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں امیدوار انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر تلخ تنقید کررہے ہیں۔ میکرون کے مطابق انتہاء دائیں بازو کی حکومت ملک کیلئے خطرہ ہوگی جبکہ لی پین کے بقول صدارتی الیکشن کا دوسرا دور رائے دہندگان کیلئے دو مخالف نظریات، سماجی بہبود اور تہذیب میں انتخاب کا موقع ہے۔ انتخابی مہم میں روس یوکرین جنگ، فرانس میں بڑھتا ہوا معاشی عدم تحفظ، اشیا خوردو نوش کی مہنگاء، اسلاموفوبیا، حجاب اور حلال گوشت، یورپی یونین اور نیٹو میں فرانس کے کردار، کورونا وبا کے نتیجے میں صحت عامہ کے نظام پر بڑھنے والا دباؤ، توانائی کا مسئلہ وغیرہ اہم عنوانات ہیں۔صدارتی انتخابات میں حجاب، ٹوپی اور مساجد و مراکز کی نگرانی وغیرہ کے ایشوز مرکزی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ میرین لی پین مسلمان خواتین کے حجاب، جانوروں کو ذبح کرنے کے روایتی طریقے اور مسلمان مہاجرین کی فرانس آمد پر پابندی کے حق میں ہیں میرین لی پین مہنگائی اور آمدنی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ وہ پنشن اور فلاحی گرانٹ بڑھانے کا وعدہ کررہی ہیں۔ وہ میکرون حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتی اور انہیں امیروں کا صدر کہتی ہیں جو گلوبلائزیشن، یورپ اور نیٹو کے حامی ہیں جبکہ لی پین خود کو محنت کش طبقے کی نمائندہ، انصاف اور بہبود کی علمبردار کہتی ہیں جو یورپ اور نیٹو کے کردار اور ان میں فرانس کے بڑے کردار کی ناقد ہیں۔ بائیں بازو کے ایرک زیمور تو غیر یورپی تارکین وطن کو فرانس سے نکالنے کی کھلم کھلا وکالت کررہے تھے مگر لی پین کے بقول وہ تارکین وطن کی تعداد میں بڑی کمی پر ریفرنڈم کروائیں گی۔ اس بار لی پین کے حاصل کردہ 23.1 فیصد ووٹ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی تاریخ میں کسی بھی انتہائی دائیں بازو امیدوار کے سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔ حالیہ مہینوں میں چار یورپی ممالک میں انتہائی دائیں بازو کی حکومتیں بنی ہیں اور ممکنہ طور پر فرانس میں بھی انتہائی دائیں بازو کی امیدوار لی پین جیت سکتی ہے۔ تاہم میکرون کے جیتنے کے امکانات بھی قوی ہیں۔ اگر میکرون دوبارہ منتخب ہوجاتے ہیں تو اس سے فرانس کیلئے یورپ کی سلامتی اور دفاع میں تعاون اور سرمایہ کاری میں اضافے کے زیادہ امکانات اُبھر آئیں گے۔