نہ گزرے تو یہ مختصر سی زندگی بھی جس کا بہت نام لیا جاتا ہے بہت طویل اور کٹھن ہوتی ہے۔گزارے نہیں گزرتی۔ سر سید احمد خان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ زندگی چار روزہ ہے مگر یہ چار روز بھی بہت دشوار ہوتے ہیں۔ پھر گزرنے پہ آئیں تو زندگی کی لمبی راتیں اور طویل دن بھی چٹکی بجاتے گزر جاتے ہیں۔ یہ تو محسوس کرنے کی باتیں ہیں۔ اگر محسوس نہ ہوتو زندگی پوری کی پوری گزر جاتی ہے جیسے کمرکے پیچھے سے بلی پنجوں کے بل گزرے او رمعلوم ہونہ پائے۔ پھرکبھی ایک لمحہ بھی اتنا بھاری ہو جاتا ہے کہ گزارے نہیں گزرتا۔ اس کو گزار کر آگے لے جانے میں بہت مشکل پڑ جاتی ہے۔ان باتوں کا سارا تعلق محسوسات سے ہے۔کبھی انتظار اور تکلیف کی ایک رات بھی ”کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے“۔اقبال کے بقول ”مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں۔مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں“۔پھر شاعر نے یہ بھی کہا کہ”خدا کرے کہ تیری عمر میں گنے جائیں۔ وہ دن جو ہم نے تیرے ہجر میں گزارے تھے“۔اس لئے تکلیف سے گزارے جانے والے پل پل بھاری پڑ جاتے ہیں۔جیسے پاؤں کے ساتھ کسی نے بڑے پتھر باندھ رکھے ہوں او ر ایک ایک قدم اٹھانا بوجھل ہوا جاتا ہو۔پھر ایسے میں زندگی کا طویل سفر درپیش ہو تو زندگی کیونکر گزر پائے گی۔جوانی کیسے گزر جاتی ہے۔کسی کو معلوم نہیں ہو پاتا۔پھر جب ہوش آتا ہے تواس وقت جوانی کانشہ ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔اس وقت پتا چلتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلا عمر گزر گئی۔ پھر آگے کی عمر کم بھی ہو یا زیادہ بہت زحمت بھری لگتی ہے۔مگر جوانی میں جو پل جھل میں گزر جاتی ہے یہی کم عمری بہت طویل فاصلوں کی راہداری لگتی ہے۔بندہ کہتا ہے یار ابھی ایک عمر پڑی ہے۔گزری ہوئی عمر والے بعض نوجوانو ں کو دیکھ کر کہتے ہیں ابھی آپ نے دیکھا ہی کیا ہے۔ابھی تو آپ نے ایک عمر گزارنی ہے۔مگر خود اس کم عمر نوجوان کو اپنے عمر ِ عزیز کے سال گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوپاتا۔ مگر جوانی کو جو تکلیف سے گزارنے والے ہوں ان کو یہ زندگی الٹا تکلیف دینے لگتی ہے۔کیونکہ محرومیوں میں تکلیف کا احساس اتنا بڑھ جاتا ہے کہ نوجوانی کی آئندہ زندگی ایک طویل سوپ ڈرامہ لگتا ہے جس کی سینکڑوں قسطیں ہوتی ہیں۔ہجر کی رات ایک ہی رات ہوتی ہے مگر پھر بھی جان سے جاتے جاتے اک عمر لگ جاتی ہے۔غالب سب سے آگے بڑھ گئے۔ ”کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں۔ شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں“ جدائی کی راتیں جو تکلیف میں گزرتی ہیں او رگزاریں نہ گزریں تو بہت طویل ہوجاتی ہیں۔اتنا کہ غالب کو کہنا پڑا کہ میں اس دنیا میں ہزاروں سال سے موجودہوں۔عمر کاحساب کرو ں تو اس میں اگر جدائی کی راتیں ہی ڈال دوں۔پھر میری عمر ہزاروں سال بنتی ہے۔”کاٹے نہ کٹیں رے رتیاں انتظار میں“۔میر تقی میر نے کہا ہے ”گل کو ہوتا صبا قرار اے کاش۔ رہتی ایک آدھ دن بہار اے کاش“۔اس نے زندگی کو چار روزہ بھی نہیں کہا کیونکہ اس نے تمام عمر دکھ درد او رناامیدی میں گزاری۔سو وہ زندگی کا دورانیہ ایک آدھ دن قرار دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف یہ شعر بھی موجود ہے ”عمرِ دراز مانگ کر لائے تھے چار دن۔ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں“۔ زندگی کو چار روزہ کہنے والے بھی کچھ سوچ کر ہی زندکی طویل ترین پٹی کو چار دن کی چاندنی پھر اندھیری را ت قرار دیتے ہیں۔پھر غالب نے تو اپنے ایک مصرعے میں اس پوری کائنات کی عمر کو اتنا مختصر کہا ہے کہ جیسے چھری کو اگر ریتی پر تیز کریں تو لوہار کی دکان میں لوہے او ر یتی میں سے نکلنے والی ایک چنگاری کو تمام کائنات کا گزرنے والا دورانیہ کہا ہے ”گرمی ئ بزم ہے اک رقصِ شرر ہونے تک“۔بلکہ فلسفیوں نے تو پوری کائنات کی عمر جو ماضی سے اب تلک رواں ہے۔ انھوں نے اس عمر کو ایک لمحہ قرار دیا ہے۔وہ لمحہ جو ابھی گزرا ہی نہیں۔ہم اسی لمحے میں سانس لے رہے ہیں او رکائنات کایہ سفر اسی ایک سیکنڈ میں جاری ہے۔تنہائی کے شب و روز خدا کسی کو نہ دکھائے۔ ہم نے دیکھے ہیں وہ لوگ جو کسی عزیز رشتہ دار اور پھر گھر ہی میں کسی دوسرے بندے کے نہ ہونے سے تنہائی کی المناک زندگی گزارتے ہیں۔ان سے پوچھو تو کہناہوتا ہے آپ کو کیا پتا تنہائی کیا ہوتی ہے۔ انسان حادثاتی طور پر تنہا ہو جائے او ر کوئی ساتھ دینے والا نہ ہو یا پھر ہو لیکن دورہو تو بندہ کہیں کا نہیں رہتا۔ایسی زندگی میں اگر سچ مچ بھی چار دن باقی ہو ں یا خود چارروزہ زندگی ہو تو کیسے گزر پائے گی۔ اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو اس المیے کے اندر سے ہوکر گزر رہے ہوتے ہیں۔اکٹھے رہنا ایک جگہ رہنا اور ایک دوسرے سے میل جول بہت اچھی بات ہوتی ہے۔یہی زندگی ہے اگر چار دن کی ہے یا زیادہ ہے۔